صبر اور خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔

آئین نافذ ہونے کے 13 ماہ بعد چودھری محمد علی وزیراعظم کے عہدہ سے مستعفی ہوگئے ہماری تاریح میں یہ واحد مثال ہے جس میں کسی وزیراعظم نے اپنے آپ کسی دباؤ کے بغیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے چودھری محمد علی انتھک کام کرنے کے عادی تھے ان کی دیانت‘امانت اور منصف مزاجی کا درجہ بھی اعلیٰ تھا۔ وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے نہایت صبر اور خاموشی سے زندگی گزاری ایک بارانہیں علاج کے لئے بیرون ملک جانا ضروری ہوگیا لیکن وسائل کی کمی ان کے راستے میں حائل تھی جب صدر اسکندر مرزا کواس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے خود ان کے ہاں جاکر کوشش کی کہ ان کے اخراجات کے لئے وہ حکومت کی مالی امداد قبول کرلیں لیکن چودھری صاحب نہ مانے‘ انکا موقف یہ تھا کہ انہوں نے حکومت کے لئے جو خدمات سرانجام دی ہیں ان کا انہیں پورا معاوضہ ملتا رہا ہے اب وہ پاکستان کے خزانے پر مزید بوجھ نہیں بننا چاہتے لیکن صدر مرزا کے مسلسل اصرار پر انہوں نے بیس ہزار روپیہ قرض حسنہ کے طور پر قبول کرلیا بعد ازاں یہ رقم انہوں نے چند قسطوں میں واپس ادا بھی کردی۔ اسی زمانے میں چودھری محمد علی نے صدر مرزا کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ اپناہاتھ بٹانے کے لئے ایک وائس پریذیڈنٹ بھی رکھ لیں‘لیکن یہ مشورہ قبول نہ کیاگیا چودھری صاحب کے بعد مسٹر سہروردی کی دیرینہ آرزو پوری ہوئی اور وہ وزیراعظم بنے ان کی حکومت ری پبلکن پارٹی اور عوامی لیگ کے اشتراک سے بنی تھی تیرہ ماہ بعد ری پبلکن پارٹی نے ان کا ساتھ بھی چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مسٹر چندریگر کی باری آئی ان کی حکومت چار سیاسی پارٹیوں کے دوش پر سوار ہوکر آئی اور بڑی مشکل سے فقط دوماہ اقتدار میں رہ سکی۔ آخر میں چھ سیاسی پارٹیوں کی کولیشن سے ملک فیروز خان نون نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا اور نوماہ کے قریب حکومت کی ان کے زمانے میں کبھی کبھی ایسی نوبت بھی آجاتی تھی کہ وزیروں کی فوج ظفر موج وزارتوں کی تعداد سے کہیں آگے نکل جاتی تھی حلف لینے والے وزیروں کو معلوم ہوتا تھا کہ ان کی وزارت کی چاندنی چند ماہ سے زیادہ نہ چمکے گی۔(شہاب نامہ سے اقتباس)