یادگار لمحے۔۔۔۔۔۔۔

پرسوں میرے ساتھ پھر وہی ہوا جو ایک برس اور تین ماہ پہلے ہوا تھا ٗیعنی میں اپنی گاڑی کی فلنگ سٹیشن پر تیل بدلی کروانے گیا تو وہاں لڑکوں نے چیخ مار کر کہا کہ سر آپ وقت پر تیل نہیں بدلواتے ٗگاڑی تو اس طرح چلتی رہتی ہے لیکن اس کا نقصان بہت ہوتا ہے لیکن آپ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ میں نے کہا بھئی اس میں اکیلے میرا ہی قصور نہیں ہے میرے ملک میں تیل کی بدلی کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم پٹرل ڈالتے ہیں ٗگاڑی چلتی رہتی ہے اور ہم ایسے ہی اس سے کام لیتے رہتے ہیں ٗ پھر اچانک خیال آتا ہے تو تیل بدلی کرواتے ہیں ٗانہوں نے کہا کہ گاڑی کا سارا تیل اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اسے باہر نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔میں نے کہا کہ یارچلتی تو رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ تو سر پڑھے لکھے آدمی ہیں اور گاڑی کا وقت پر تیل بدلوانا بہت ضروری ہے پچھلے سال بھی انہوں نے مجھ سے یہی بات کہی تھی اور مجھ سے بدستور یہ کوتاہی سرزد ہوتی رہی ٗ جب وہ لڑکے تیل تبدیل کر رہے تھے تو میں سوچنے لگا کہ میں باقی سارے کام وقت پر کرتا ہوں بینک بیلنس چیک کرتا ہوں ٗیوٹیلٹی بلز وقت پر ادا کرتا ہوں اور یہ ساری چیزیں میری زندگی اور وجود کے ساتھ لگی ہیں لیکن میں نے کبھی اپنے اندر کا تیل تبدیل نہیں کیا۔میری نیت تو شاید نیک تھی اور میں اچھا آدمی بھی تھا لیکن یہ کوتاہی میری زندگی کیساتھ ساتھ چلتی آ رہی تھی اور میرا کوئی بس نہیں چلتا تھا میرے ساتھ ایسی بے اختیاری وابستہ تھی کہ میں اس کو اپنی گرفت میں نہیں لاسکتا تھا۔ میرے خیال میں اپنی روح کے تیل کو تبدیل کرنے کی اپنے بدن کی صفائی سے بھی زیادہ ضروری ہے جس کی طرف آدمی کسی وجہ سے توجہ نہیں دے سکتا وہاں بھی ہمارا مزاج اپنی گاڑیوں سے سلوک کی طرح سے ہی ہے جیسا کہ ہم اپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈال کے تو چلتے رہتے ہیں لیکن پٹرول سے مفید تر تیل بدلی کا کام ہم نہیں کرتے تاکہ گاڑی کا انجن محفوظ رہے ہم ایسا نہیں کرسکتے وہاں سوچتے سوچتے اور بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ کچھ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی توجہ اپنی تیل بدلی کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے گروہ میں زیادہ خوبصورت بن کر ابھرتے ہیں اور لوگوں کے مزاج کیلئے کچھ کہے بولے بغیر بہت سارے کام کردیتے ہیں۔ بڑے سالوں کی بات ہے جب1952-53ء میں بہت بڑا سیلاب آیا تھا اس وقت ابھی لاہور کو سیلاب سے بچانے والی فصیل بھی نہیں بنی تھی جسے آپ بند کہتے ہیں اس وقت لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر ایسی ایسی جگہوں پر جا بیٹھے تھے جہاں زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ہم اپنے طور پر یہ سوچ کر وہاں گئے کہ شاید وہاں ہمارا جانا مفید ہو یا پھر تجسس میں بطور صحافی ہم کچھ دوست وہاں گئے تو وہاں ایک بوڑھی مائی دو تین ٹین کے ڈبے رکھ کر بیٹھی تھی اس کے پاس ایک دیگچی تھی اور یوں لگتا تھا کہ اس نے کل شام وہاں چولہا بھی جلایا ہے اور اس سے کچھ پکایا بھی ہے اس کا کوئی آگے پیچھے نہیں تھا۔ وہاں ان خیموں میں لوگ دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ہمارے ساتھ آئے ہوئے ممتاز مفتی نے اسے د یکھ کر کہا کہ یار اس کی حالت تو بہت ناگفتہ اور خراب ہے میں نے کہا کہ ظاہر ہے اور بھی بہت سے لوگ اس کیساتھ ہیں ٗاس خراب حالت میں اس کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا اطمینان و سکون تھا وہ بڑی تشفی کیساتھ بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر کوئی شکایت نہیں تھی ممتاز مفتی نے اس سے کہا کہ ”بی بی اگر تم کو دو سو روپے مل جائیں (دو سو کاسن کر اس کی آنکھیں روشن ہوئیں) تو پھر تم ان کا کیا کرو گی؟“کہنے لگی”بھاجی لوگ بڑے غریب نیں میں اونہاں وچ ونڈدیاں گی“اب اتنے برس کے بعد مجھے اس مائی کا چہرہ بھی یاد آگیا۔(اشفاق احمد کے نشرپروگرام سے اقتباس)