مشہور براڈ کارسٹر رضا علی عابدی کا میانوالی کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہے کہ مجھے وہاں سے ایک نو عمر طالب علم خط لکھا کرتا تھا لکھتا تھا کہ مجھے ہوائی جہازوں کا دیوانگی کی حد تک شوق ہے ٗ میں ہوائی جہازوں کا انجینئر بننا چاہتا ہوں‘اسکا یہ اشتیاق دیکھ کر میں نے اسے لندن سے ہوائی جہازوں کے بارے میں ایک اچھی سی کتاب بھیج دی اور پھر میں بھول بھال گیا‘ البتہ میانوالی پہنچتے ہی مجھے اس نوجوان کا خیال آیا مگر مجھے تو اب اس کا نام تک یاد نہیں تھا‘ صرف اسکے محلے زادے خیل کا نام یاد رہ گیا تھا۔میں نے اپنے میزبانوں کو یہ ساری بات سنائی اور کہا کہ جی چاہتا ہے کہ جا کر اس سے ملوں اور اس کی ہمت بڑھاؤں‘وہ لوگ بولے کہ محلہ زادے خیل یقینا موجود ہے مگر لڑکے کا نام یاد نہیں تو وہ کیسے ملے‘میں نے کہا کہ مجھے اس محلے میں لے چلئے ٗمیں اس مخلوق کو جانتا ہوں جس سے زیادہ محلے کا حال کوئی اور نہیں جانتا۔اب جو ہم چلے تو میزبانوں کا قافلہ ساتھ ہو لیا۔ اتنے میں محلہ زادے خیل آگیا‘میرے قافلے والے ہر آتے جاتے بزرگ سے پوچھتے لگے۔ ”یہاں کوئی نوجوان رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا شوق ہے؟اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جو ہوائی جہازوں کے پیچھے دیوانہ ہے‘سارے بزرگ نفی میں گردنیں ہلاتے رہے۔اس وقت میری نگاہیں ان لوگوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جن سے کسی گلی کسی محلے کا حال چھپا نہیں رہتا۔نو عمر لڑکے!اچانک بارہ بارہ تیرہ تیرہ سال کے تین لڑکے نظر آئے جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جھومتے چلے جا رہے تھے میں لپک کر ان کے پاس گیا اور بولا کہ بیٹے! اس محلے میں کوئی لڑکا رہتا ہے جسے ہوائی جہازوں کا بے حد شوق ہے؟میرا یہ پوچھنا تھا کہ بچوں نے میری انگلی پکڑی اور لے جاکر ایک مکان کے سامنے کھڑا کر دیا اور بولے’یہاں رہتا ہے وہ۔“ہم سب نے بڑے اشتیاق سے دستک دی۔ امید تھی کہ ایک شاہین صفت ٗہونہار ٗسعادت مند لڑکا برآمد ہوگا اور مجھے اپنے سامنے کھڑا دیکھ کربے حد خوش ہوگا وہ تو نہیں آیا۔ دروازے پر اس کی والدہ آئیں۔میں نے اپنے آنے کا مدعا بتایا‘وہ بولیں:”شہزاد؟وہ تو سرگودھا چلا گیا ہے“میں نے پوچھا کیوں؟کہنے لگیں:اسے ائیرفورس کے سکول میں داخلہ مل گیا ہے ایک دو برس میں وہ ہوائی جہازوں کا انجینئر ہو جائے گا۔ہے……واقعی باکمال لوگوں کا شہر ہے‘کسی بھی شہر یا ملک کی روایات اسی صورت زندہ رہ سکتی جب نوجوان نسل کو ان سے آگاہ کیاجائے، رضا علی عابدی ماریشس میں ان نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کا احوال لکھتے ہیں جن کے آباؤ اجداد برصغیر سے وہاں جاکر آباد ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایک روز نوجوانوں نے مجھے گھیر لیا‘ ”صابر نے کہا ”یہ کشمیر کا کیا مسئلہ ہے“ عظیم نے کہا”ہمیں بھی سمجھائیے“۔ میں سمجھانے لگا کہ کشمیر پاکستان سے کس طرح جڑا ہوا ہے‘ سیالکوٹ سے جموں تک ریل گاڑی چلتی تھی اور راولپنڈی سے سری نگر تک تانگہ جاتا تھا‘اچانک ایک لڑکا بولا“۔”تانگہ کیا ہوتاہے؟“ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ان کے بزرگ ڈیڑھ سو سال پہلے ہندوستان سے آئے اور پھر کبھی واپس نہیں گئے‘ میں جتنے دن ماریشس میں رہا ہر ایک سے پوچھتا پھرا کہ کبھی ہندوستان پاکستان جانا ہوتا ہے‘ چند طالب علموں کے سوا سب نے نفی میں جواب دیا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اردو کو اب تک زندہ رکھاہے۔ایک روز درسی کتابیں ا ور نصاب مرتب کرنے والے سرکاری ادارے میں ایک نشست ہوئی‘ دور دور سے اردو پڑھانے والے استاد وہاں آئے تھے‘د یر تک باتیں ہوتی رہیں‘ ولی دکنی کا انتخاب کیسے پڑھایا جائے‘ فسانہ آزاد پڑھانے سے طالبعلموں کو کتنا فائدہ ہوگا‘ مثنوی گلزار نسیم کا مطالعہ کتنا مفید ہوگا اورہاں اگر میرا من کی باغ وبہاربھی پڑھا دی جائے تو کیا مضائقہ۔آخر میں میری باری آئی‘ مجھ سے پوچھا گیا کہ ماریشس میں اردو کی تعلیم کیسے ہو؟میں نے کہا مجھے ایک طالبعلم تصورکریں میرے دادا کے دادا 1858ء میں انگریزوں کے ظلم سے بچنے کیلئے جہاز میں بیٹھ کر ماریشس آئے‘ اس کے بعد ہم واپس نہیں گئے‘ آپ مجھے ماریشس کے غلاموں کی کہانی کیوں نہیں پڑھاتے کہ وہ کیسے آزاد کئے گئے‘ آپ مجھے ہندوستان سے جہازوں میں بھر بھر کر لائے جانیوالے مزدوروں کا ناول کیوں نہیں پڑھاتے‘ رضا علی عابدی برصغیر سے ماریشس لے جانے والے غریب لوگوں کی داستان میں وہاں کے محفوظ ریکارڈ میں موجود تفصیل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کس طرح انہیں غلامی کی زندگی پر مجبور کیاگیا۔ میری ملاقات مرنیا کارٹر سے ہوئی۔ مرنیا تاریخ دان ہیں۔ ان کا تعلق لندن یونیورسٹی سے ہے اور بہت عرصہ سے تحقیق کر رہی ہیں۔میں جوگیا تو انہوں نے پورا دفتر خانہ میرے لئے کھول دیا اور الماریوں سے نکال کر ایک ایک رجسٹر مجھے دکھانے لگیں۔جہازوں سے اترنے والوں کا اندراج الگ تھا۔ انہیں جاری ہونے والے کاغذات کے رجسٹر‘ ان کے جینے مرنے کے رجسٹر‘ ان کے خطوط‘ ان کی درخواستیں‘ ان کی شکایتیں یہ سب وہاں محفوظ تھیں۔میں جہازوں سے اترنے والے جہازی بھائیوں کے اندراج کے رجسٹر دیکھنا چاہتا تھا۔ ہر شخص کی حیرت انگیز تفصیل لکھی گئی تھی‘اسے ہندوستان میں ملنے والا شناختی نمبر‘ پھر ماریشس میں ملنے والا نمبر (جو مرتے دم تک اس کے گلے میں پڑا رہتا تھا) اس کے بعد اس کا نام‘ پھر عمر‘ اس کے بعد ذات‘ پھر قدوقامت اور کاٹھی‘ پھر شناختی نشان‘ اس کے بعد ماں یا باپ کا نام‘ آخر میں گاؤں اور ضلع کانام‘ بعد میں اس کے اوپر سرخ پنسل سے لکھی ہوئی اس کی مرنے کی تاریخ۔اسکے بعد مرنیا کارٹر نے مجھے وہ رجسٹر دکھائے جن کے ورقوں پر جہاز سے اترنے والے مزدوروں‘ ان کی بیویوں اور بچوں کی تصویریں بھی چسپاں کی جاتی تھیں‘ یہ تصویریں اتارنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جزیرے میں کیمرہ آیا اور مزدور مشقت سے بھاگ کر جنگلوں اور دوسری آبادیوں میں چھپنے لگے۔ مگر وہ کمال کا کیمرہ تھا۔ اس میں تصویر شیشے کی پلیٹ پر اتاری جاتی تھی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات