امریکہ کی برہمی

جمعرات کے دن کابل ایئر پورٹ پر ہونے والے تین حملوں میں 90 افرادہلاک اور 140زخمی ہوئے ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں تیرہ امریکی فوجی بھی شامل ہیں اس بہیمانہ حملے کے فوراًبعد صدر بائیڈن نے کہا کہ ”اس کا جواب کب اور کس وقت دینا ہے اسکا فیصلہ امریکہ کرے گا“ صدر امریکہ نے کہا کہ انخلا ء کا عمل جاری رہے گا اور اسے ہر قیمت پر 31 اگست تک مکمل کر لیا جائیگا۔داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔طالبان نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایئر پورٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری امریکی فوج نے سنبھالی ہوئی تھی۔افغانستان میں گذشتہ بیس سال میں امریکی فوج پر ہونے والا یہ تیسرا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس سے پہلے 2005 ء میں طالبان نے ایک امریکی ہیلی کاپٹر گرا کر سولہ ایلیٹ کمانڈو  (Navy Seal) ہلاک کئے تھے۔ 2011ء  میں ایک ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے سے 30امریکی ہلاک ہوئے تھے اب ان 13 ہلاکتوں کے بعد صدر بائیڈن پر ہونیوالی تنقید کے شور میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اس سانحے کے امریکہ اور طالبان تعلقات پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان قیادت امریکہ کے جوابی حملے پر کیا رد عمل دیتی ہے۔امریکہ اگر مزید انسانی جانوں کے ضیاع کے بغیر واپسی کا عمل مکمل کر لیتا تو بائیڈن انتظامیہ سے طالبان کیساتھ تعلقات میں نرمی کی توقع کی جا سکتی تھی مگر اب امریکہ میں ان ہلاکتوں پر شدید عوامی رد عمل سامنے آئے گا جس کے بعدصدر بائیڈن کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے اور انہیں کوئی مالی امداد دینے کے فیصلوں پر سخت پالیسی اختیار کرنا پڑیگی۔یورپی یونین کے ممالک پہلے ہی طالبان کی طرف سے اکتیس اگست کی ڈیڈ لائن نہ بڑھانے پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔کابل ائیر پورٹ پر حملے سے دو دن پہلے سی آئی اے کے چیف ولیم برنز نے کابل میں طالبان لیڈر ملا غنی برادر سے ملاقات کی تھی امریکہ کے قومی اخبارات اور نیوز چینلز نے اس ملاقات کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا تھا اس میٹنگ میں جو امور زیر بحث آئے انہیں سی آئی اے نے بتانے سے گریز کیا پینٹا گون نے صرف اتنا کہا کہ طالبان قیادت سے اکتیس اگست کی ڈیڈ لائن کو بڑھانے کی بات نہیں کی گئی اس گفتگو کی تفصیلات کو صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے اس کی پر اسراریت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان نے ولیم برنز کے دورے کی خبر کی تردید کی ہے۔ظاہر ہے طالبان قیادت اپنے جنگجو ؤں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتی کہ وہ امریکہ سے بیک ڈور ڈپلومیسی کر رہی ہے اس ملاقات کی تشہیر طالبان کیلئے نقصان دہ ہے مگر امریکہ کیلئے فائدہ مند ہے بعض اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں داعش کی طرف سے حملوں کے خطرے پر امریکہ طالبان مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت ہوئی پندرہ اگست کو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہ بات زیر بحث ہے کہ افغانستان سے واپسی کے بعدامریکہ اپنے مفتوحہ ملک کو اسی طرح بھلا دیگا کہ جس طرح اس نے ویت نام کا نام ایک طویل عرصے تک نہیں لیا تھا یا پھر اسے جس طرح عراق میں واپس جانا پڑا تھا اسی طرح وہ افغانستان میں بھی واپسی پر مجبور ہو جائیگا۔عراق میں آٹھ برس تک مسلسل جنگ جاری رکھنے کے بعدامریکہ 2011 ء میں واپس تو چلا گیا تھا مگر اس کے فوجی ٹھکانے اور تربیت دینے والے ڈھائی ہزار فوجی وہیں رہے تھے افغانستان میں اسے یہ سہولت حاصل نہیں مگر بائیڈن انتظامیہ پندرہ اگست کے بعد سے مسلسل افغانستان میں داعش اور القاعدہ کی موجودگی کا ذکر کر رہی ہے۔بیرونی دنیا امریکہ کی دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں حساسیت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی مگر امریکی سرزمین پر نو گیارہ قسم کے کسی بھی دوسرے حملے نے پورے ملک کو ایک مرتبہ پھر تہہ و بالا کر دینا ہے اس لئے کوئی بھی امریکی صدر اس معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا۔منگل کو شائع ہونے والے یو ایس اے ٹو ڈے اخبار کے سروے کے مطابق 68% امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائیگااور وہاں سے پھر امریکہ پر حملے کی منصوبہ بندی کی جائیگی اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ولیم برنز کے دورہ کابل کی اصل وجہ امریکی عوام کو یہ یقین دلانا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ داعش اور القاعدہ کے حملوں سے اغماز نہیں برت رہی سی آئی چیف کا دورہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ امریکہ طالبان حکومت سے بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا چاہتا ہے اس سے یہ نتیجہ بھی اخذکیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اس خطے میں موجودگی برقرار رکھے گا۔یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیا ء میں ایک نئے انداز سے موجودگی کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اس حوالے سے جمعرات 26 اگست کے نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی خبر شائع ہوئی ہے اس خبر پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ خبر خواہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو اسے حکومتی پالیسی کا متبادل تصور نہیں کیا جا سکتا۔البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اس کے مندرجات کو پالیسی سازی کے عمل میں شامل کر لے مذکورہ بالا اخبار کو کم از کم پینتیس برسوں سے پڑھنے کی وجہ سے میرا تاثر یہ ہے کہ اس کا ایڈیٹوریل بورڈ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں کسی بھی جماعت کی پالیسیوں کی زیادہ مخالفت نہیں کرتا بلکہ انہیں خاصی وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے مغربی دنیا کے اس سب سے بڑے لبرل اخبار نے آج تک کسی بھی امریکی جنگ کو شروع کرنے کی مخالفت نہیں کی ویت نام اور عراق جنگ کی مخالفت اس نے رائے عامہ کے بدلتے ہوئے تیوردیکھ کر کی تھی افغان جنگ کے بارے میں اس نے چار ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن صدور کی حمایت کی اس تمہید کا مقصد یہ کہنا ہے کہ چھبیس اگست کے اخبار میں فرنٹ پیج پر چھپنے والی ایک خبر میں کھلم کھلا پاکستان کو افغانستان میں امریکہ کی شکست کا ذمہ قراردیتے ہوئے بیس سالوں میں امریکہ کی تمام کوتاہیوں کا ملبہ اسلام آباد پر گرایا گیا ہے۔اس خبر کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسے حکومت کے ایماء  پر ہی شائع کیا گیا ہے اس پر مزید بات اگلے کالم میں ہو گی۔