معروف براڈ کاسٹررضاعلی عابدی کتابوں کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ریڈیو کا ایک پروگرام بارہ ہفتے چلنا تھا اور تقریباً ایک سو چالیس ہفتے چلا۔ اس کا عنوان تھا: کتب خانہ۔اور جب یہ پروگرام بند ہوا تو شکوہ کرنے والوں کا ایسا احتجاج بلند ہوا کہ مجھے سرکاری دورے پر ہندوستان‘ پاکستان جانا پڑا۔پہلی بات تو یہ کہ جب میں نے بی بی سی کی ملازمت کے لئے درخواست دی اور مجھے اچھی طرح ٹھوک بجاکر دیکھ لیاگیا اور طے پاگیا کہ مجھے سن1972ء کے آخر میں انگلستان جانا ہے تو میرا ذہن اس پروگرام کے منصوبے بنانے لگا۔مجھے اندازہ تھا کہ برصغیر میں لکھی جانے اور چھپنے والی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری اور برٹش لائبریری میں موجود ہے۔ مجھے خیال تھا کہ ان میں سے بہت سی کتابیں جو برطانیہ نہ جاسکیں‘وہ ضائع ہوگئی ہیں یا اگر موجود ہیں تو ان تک رسائی آسان نہیں۔ان میں بہت سی ایسی کتابیں بھی ہیں جو بیسیویں مرتبہ شائع ہوئیں اور آج تک نہ صرف ہمارے گھروں میں موجود ہیں بلکہ شوق سے پڑھی بھی جاتی ہیں۔ان میں ایسی کتابوں کا شمارکرنا مشکل ہے جو لوگوں نے بڑی عرق ریزی کے بعد لکھیں‘جو شائع ہوئیں اور پڑھی گئیں۔ اس کے بعد گزرتے وقت کی گرد نے انہیں ڈھانپ لیا اور دنیا انہیں بھول بھال گئی۔میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان ساری ہی کتابوں کو دیکھا جائے‘ ان کو پڑھا جائے‘ ان کے بارے میں کچھ لکھا جائے اور ریڈیو کے سامعین کو ان کتابوں کا احوال سنایا جائے‘اسی طرح میں نے سوچا کہ نظم اورنثر کی کتابیں جو ابتداء میں شائع ہوئیں ان کی تخلیق میں کیسی کیسی مشقت کی گئی۔ کس طرح انہیں سنوارا گیا اور عوام کے ہاتھوں میں وہ کیونکر پہنچیں اور کس طرح انہیں قبولیت حاص ہوئی یا یہ بھی ہوا کہ وہ قبولیت کے درجے کو پہنچنے سے پہلے ہی گمنامی کے غار میں جاگریں۔ذہن میں یہ سارے منصوبے میں نہیں بنا رہا تھا‘ میری چشمِ تصور بنا رہی تھی کیونکہ ابھی تک میں نے نہ انڈیا آفس لائبریری میں قدم رکھا تھا اور نہ برٹش لائبریری میں۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں اردو کتابوں کی باقاعدہ چھپائی سن 1803ء کے لگ بھگ شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور چھپنے والی ہر کتاب کی چھ جلدیں برطانیہ بھیجی جانے لگیں۔ جلدیں انڈیا آفس‘ برٹش لائبریری اور آکسفورڈ‘ کیمبرج‘ سکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی یونیورسٹیوں میں جمع ہونے لگیں۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ سمندری جہازوں میں لدکر ہندوستان کی ہر کتاب برطانیہ پہنچی البتہ جو جہاز راہ میں ڈوب گئے ان میں لدی ہوئی کتابیں بھی دریا بردہوگئیں اور اب نایاب ہیں۔