امریکہ کی برہمی۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف آجکل مغربی میڈیا پر اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہیں دیا گذشتہ ہفتے سی این این‘ این بی سی‘ اور بی بی سی پر انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی کمیونٹی کا ایک ذمہ دار ممبر ہے اور اس حیثیت سے اس نے افغانستان سے ہزاروں افراد کو بحفاظت نکال کر ایک اہم کردار ادا کیا ہے ڈاکٹر معید یوسف نے تینوں مغربی چینلز پر سخت سوالات کے جواب نہایت تحمل سے دیتے ہوے کہا کہ پاکستان نے افغان جنگ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں اب مغربی ممالک کو چاہئے کہ وہ الزامات لگانے کی بجائے اس طویل اور صبر آزما جنگ میں پاکستان کی خدمات کا اعتراف کریں ڈاکٹر معید یوسف نے بوسٹن یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل سائنس اور ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگریاں لی ہیں امریکی شہریت رکھنے والے ڈاکٹر یوسف واشنگٹن میں Institute Of Peace کی ایشیا برانچ کے نائب صدر بھی رہے ہیں ان سے سی این این پر دو مختلف انٹرویوز میں پوچھا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان یہ کہہ کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ افغانستان کے عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں ڈاکٹریوسف اس سوال کا یہی جواب دے سکے کہ وزیر اعظم کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا جا رہا ہے اس قسم کے جواب کسی بھی ملک کے ناظرین کو قائل کرنے کی بجائے کسی معقول جواب کے نہ ہونیکا تاثر دیتے ہیں ان تینوں انٹرویوز میں ڈاکٹر یوسف بڑے جچے تلے انداز میں اینکرز کے تابڑ توڑ سوالوں کے جواب میں اپنے ملک کا دفاع کرتے رہے‘ ان انٹرویوز سے یہ بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ پاکستان امریکہ کیساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے مگر امریکہ اتنا برہم ہے کہ وہ کسی دلیل اور منطق کو خاطر میں نہیں لا رہا اسکا اندازہ ان خبروں اور تجزیوں سے لگایا جا سکتا ہے جو دو ہفتوں سے امریکہ کے بڑے اخبارات میں شائع ہو رہے ہیں‘چھبیس تاریخ کے نیو یارک ٹائمز کی شہ سرخی میں لکھا ہےPakistan Has Future Riding on Taliban یعنی پاکستان کے مستقبل کا انحصار طالبان پر ہے اسکی وضاحت کرتے ہوے تجزیہ نگار Jane Perlez نے لکھا ہے   If the Afghan Taliban become leader of a pariah state Pakistan will find itself tethered to them یعنی افغان طالبان اگر ایک دھتکاری ہوئی ریاست کے لیڈر بن جاتے ہیں تو پاکستان خود کو انکی رسی سے بندھا ہوا پائے گا یہ خبر کیونکہ News Analysis کے کیپشن کیساتھ شائع ہوئی ہے اسلئے اسمیں تجزیہ نگار کو دل کی بھڑاس نکالنے کے مواقع میسر تھے پاکستان کو افغان جنگ میں امریکہ کی دی ہوئی امداد کے بارے میں لکھا گیا ہے کہMuch of the money disappeared into unaccounted sinkholes یعنی زیادہ تر امداد نا معلوم تاریک غاروں میں غائب ہو گئی اندر کے پورے ایک صفحے پر پھیلا ہوا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ ایڈیٹر نے تجزیہ نگار کوالزام تراشی کی مکمل اجازت دی ہوئی تھی ایک موقع پر پوچھا گیا ہے کہ What will Pakistan do with the broken country  that is its prize یعنی پاکستان اس ٹوٹے ہوئے ملک کا کیا کرے گا جو اسے انعام کی صورت میں ملا ہے جواب اسکا یہی ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے جس ملک کو توڑنے میں بیس سال لگائے اسے آسانی سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے خاتون صحافی Jane Perlez بیجنگ میں نیویارک تائمز کی بیورو چیف ہیں اور وہاں سے وہ چین کے ہمسایوں کے بارے میں بھی مضامین لکھتی ہیں زیر نظر تجزیے میں انہوں نے کراچی کے روزنامہ ڈان میں سابق سفارتکار ملیحہ لودھی کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوے لکھا ہے کہ پاکستانی دانشور اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ افغانستان ایک تباہ حال ملک ہے اور طالبان گوریلا جنگ تو لڑ سکتے ہیں مگر انہیں حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے‘ڈاکٹر معید یوسف کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے بارے میں خاتون صحافی رقمطراز ہیں کہ وہ وہاں زیادہ تر انڈیا کیخلاف بولتے رہے اور انڈیا کے بارے میں انکے بیان کی شدت کو سنکرامریکی بہت حیران ہوئے Americans said they were struck by his  vehemence on India's role in Afghanistanہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر یوسف نے انڈیا کیخلاف گفتگو کو زیادہ طول دیا ہو مگر پاکستان کا مشیر قومی سلامتی اگر انڈیا کیخلاف بولتا ہے تو اسمیں امریکی حکام کیلئے حیرانگی کی کیا بات ہے کیا وہ پاکستان انڈیا دشمنی بارے میں کچھ نہیں جانتے اس تجزیے میں ایک ایسا انکشاف بھی کیا گیا ہے جسکا ذکر اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا Jane Perlez لکھتی ہیں کہ اوباما انتظامیہ کو یہ شک تھا کہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے پاکستان کے حکام باخبر تھے مگر انہوں نے اسے چھپائے رکھااس بات کو صدر اوباما نے اسے صیغہ راز میں رکھا کہ اسکے جواب میں پاکستان امریکہ کے جنگی سامان کی افغانستان کو ترسیل روک دیتا جسکا امریکہ کو سخت نقصان ہوتا Jane Perlez کے اس تجزیے کے علاوہ چوبیس اگست کے واشنگٹن پوسٹ میں سابقہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر John Bolton نے لکھا ہے کہ اب واشنگٹن کا پاکستان پر انحصار کم ہو گیا ہے اسلئے وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کیساتھ اسکی بد سلوکی کی سزا دی جائے واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار Josh Rogin نے پچیس اگست کے کالم میں ڈاکٹر معید یوسف سے ٹیلیفون پر کئے ہوے ایک حالیہ انٹرویو کی روشنی میں لکھا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کیساتھ تعلقات معمول پر لانے سے افغانستان کی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے میں بہت آسانی ہو جائیگی اس انٹرویو میں معید یوسف نے کہا تھا کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی بجائے اس سے ایک اتحادی کا سلوک کرے۔