ناقابل فراموش یادیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لارنس روڈ والے فلیٹ میں دو بڑے بیڈ روم اور ایک چھوٹا سا کمرہ تھا‘بسا اوقات اس میں ہم تیس تیس پینتیس پینتیس لوگ گزارہ کرتے تھے‘بہت سے دوست احباب بھارت اور کشمیر سے جان بچا کر ہمارے پاس پہنچ رہے تھے‘سب کے سب انتہائی خستہ حالی اور درماندگی کا شکار تھے‘ کوئی پاپیادہ قافلوں کیساتھ مہینوں کے سفر کے بعد پاکستان پہنچا تھا‘کوئی ان گاڑیوں پر سوار تھا جنہیں جا بجا روک کر لوٹا جاتا تھا‘کوئی طویل عرصے تک مہاجر کیمپوں کی دلدل میں دھنسا رہا تھا‘کسی کو کپڑوں کی حاجت تھی‘ کسی کو علاج معالجے کی ضرورت تھی اور زندگی کیساتھ از سر نو ناطہ جوڑنے کیلئے سب ایک دوسرے کے محتاج تھے‘ایک روز میں نے اپنا بٹوہ کھولا‘ تو اس میں فقط سولہ روپے موجود تھے‘مجھے بڑی تشویش لا حق ہوئی کیونکہ ابھی مہینہ پورا نہیں ہوا تھا اوراگلی تنخواہ میں آٹھ دس روز باقی تھے‘ اس زمانے میں میرے پاس کوئی بینک بیلنس نہ تھا بلکہ اس وقت تک میں نے سرے سے کوئی بینک اکاؤنٹ ہی نہ کھولا تھا بہار‘ بنگال اور اڑیسہ میں میرا قاعدہ تھا کہ میں پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ نقد وصول کرتا‘کچھ پیسے ماں جی کو جموں بھیج دیتا تھا اور باقی رقم مہینے کے آخر تک ٹھکانے لگا دیتا تھا‘اب جو میں نے دیکھا کہ گھر میں دو ڈھائی درجن مہمان اور بٹوے میں صرف سولہ روپے موجود ہیں‘ تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘میرا واحد اثاثہ ایک انشورنس پالیسی تھی جو چند سال قبل میں نے بھاگلپور میں خریدی تھی انشورنس ایجنٹ مشہور کانگریسی لیڈر اور بعد میں بھارت کے پہلے صدرڈاکٹر راجندرپرشاد کا بیٹا تھا جو پالیسیاں اسکے ذریعہ لی جاتی تھیں وہ ان پر تحفتاًاپنے والد کے آٹو گراف کا ٹیل بھی ضرور چسپاں کیا کرتا تھا‘میں اپنی پالیسی لیکر انشورنس کمپنی کے دفتر گیا اور منیجر سے کہا کہ واجب الادا رقم وصول کرکے میں بیمہ کی پالیسی سے دست بردار ہوناچاہتا ہوں‘ہندو منیجر کانگرسی لیڈروں کا پرستار نظر آتا تھا‘اس نے مجھے سمجھایا کہ اس آٹو گراف کی وجہ سے یہ پالیسی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے‘ تیس برس بعد جب یہ پالیسی واجب الادا ہو گی‘ تو اپنے آٹو گراف کی وجہ سے اسکا شمار بے بہا نوادرات میں ہو گا اور یقینی طور پر اس کی اصلی قیمت اس کی عرفی قیمت سے کئی گنازیادہ پڑے گی۔میں نے منیجر کی کاروباری فراست کی تعریف کی‘ لیکن دست برداری کے ارادہ پرمستقل مزاجی سے اڑا رہا‘کچھ مزید ردوکد کے بعد منیجر نے حساب جوڑا‘ اور پالیسی واپس لیکر مجھے تین ہزارسات سو روپے ادا کردئیے‘یہ گراں قدر رقم ہاتھ میں آتے ہی تہی دستی کے لمحات کی یادکافور کی طرح اڑ گئی اور میرا دماغ از سر نو آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ ایک روز چندریگر صاحب کی طبیعت ناساز تھی‘ انہوں نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں ان کے دفتر میں پڑی ہوئی سب فائلیں لے کر ان کے گھر آجاؤں‘چندریگرصاحب باہر لان میں بیٹھے ہوئے تھے‘ ان کے پاس سردار عبدالرب نشتر بھی تشریف فرما تھے ”آپ سٹاف کار میں کیوں نہیں آئے“ چندریگرصاحب نے پوچھا۔سٹاف کارفارغ نہ تھی‘ میں نے جواب دیا‘ چندریگر صاحب نے یکے بعد دیگرے دو تین افسروں کے نام لئے اور بولے“ ہاں ان میں سے کسی کے بچوں کو کلفٹن کی سیر کرانے گئی ہو گی۔ کسی وجہ سے چندریگرصاحب مجھے مسٹرسوہاب کہا کرتے تھے۔ انہوں نے نشتر صاحب سے میرا تعارف یوں کرایا”یہ میرے انڈرسیکرٹری مسٹر سوہاب ہیں۔”سحاب آپ کا تخلص ہے؟ نشتر صاحب نے دلچسپی کے انداز میں پوچھا‘ میں نے انہیں اپنا پورانام بتایا‘ تو نشتر صاحب پیشانی سکیڑ کر کچھ سوچ میں پڑ گئے اور بولے کیا ہم پہلے کبھی مل چکے ہیں؟ مجھے اس نام سے کسی قدر شناسائی کی بو آتی ہے۔“میں نے عرض کیا کہ اس سے پہلے مجھے ان کی نیاز مندی کا شرف حاصل نہیں ہوا‘چندریگر صاحب کی ہدایت کے مطابق میں نے کامرس‘ ورکس اور انڈسٹریز ڈویژنوں کی فائلیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کرکے رکھ دیں تو نشتر صاحب بھی فارغ ہو کر چلنے کو تیار تھے‘انہوں نے از راہ نوازش مجھے اپنی کار میں لفٹ دینے کی پیشکش کی‘راستے میں ایک مقام پر کچھ ہندوخاندان آٹھ دس اونٹ گاڑیوں پر اپنا سامان لادے بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے نشتر صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا‘ یہ لوگ کتنے آرام سے اپنا تنکا تنکا سمیٹ کر یہاں سے لے جا رہے ہیں‘نشتر صاحب کی تفنن طبع کے لئے میں نے انہیں اپنے ہندو لینڈلارڈ کے کچھ لطیفے سنائے تو وہ حیرت سے بولے آپ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں؟لینڈ لارڈ کیا کرایہ وصول کرتا ہے‘تقریباً آدھی تنخواہ‘ میں نے بتایا‘ سرکاری مکان کیوں نہیں ملا؟ انہوں نے پوچھا میں نے محکمے کی مجبوریاں اور معذوریاں بیان کیں تو وہ خاموش ہو گئے‘دو تین روز کے بعد نشتر صاحب کا پی اے میرے دفتر میں آیا اور لارنس روڈ پر نوشیروان جی مہتہ بلاک کے ایک فلیٹ کا الاٹمنٹ آرڈر میرے حوالے کر گیا مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ فلیٹ انہوں نے میرے لئے کس طرح حاصل کیا۔(شہاب نامہ سے اقتباس)