حقیقی صفائی

میرا خاوند ایسی جگہ کام کرتا ہے جہاں کپڑے بہت زیادہ گندے ہوجاتے ہیں لیکن جب سے میں نے یہ واشنگ پاؤڈر استعمال کیا ہے‘جھٹ میں سارے داغ صاف ہو گئے۔“ اس طرح کے اشتہار دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی اس طرح ایک میرے دوست ہیں اور ان کی بڑی ہی پیاری بہو ہے‘ اس کا نام جویریہ ہے‘ انہوں نے حال ہی میں ایک کوٹھی بنائی ہے‘ یہ لڑکیوں کا شوق ہوتا ہے کہ جب گھر وغیرہ بن جاتا ہے تو وہ اسے سجانے یا اس کی تزئین و آرائش کی بابت سوچنے لگ جاتی ہیں۔ اب اس کے رہنے کا یاسونے کا کمرہ واقعی بہت خوبصورت اور غضب کا ہے اور اس کا ڈرائنگ روم اس سے بھی بڑھ کر ہے‘ اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہماری توجہ زندگی کے مقابلے میں رہن سہن پر زیادہ ہے ہم اسی پر بہت زور دیتے ہیں‘زندگی چاہے اس کے پیچھے لٹکتی آئے‘ یہ دیکھ کر بھی مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ صفائی کی طرف‘خوبصورتی‘ ستھرائی اور حفظان صحت کی طرف ہماری بڑی توجہ ہے‘ میں پھر پلٹ کر اپنا گھر دیکھتا ہوں جو پرانی وضع کا ہے لیکن کچھ ایسا بھی برا نہیں ہے‘اس میں پرانی طرز کا فرنیچر ہے جو بڑا بھاری ہے۔ ہم جس جگہ بھی رہتے ہیں یہ ہماری دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جگہ بڑی صاف ہو‘ میں کسی ایسے ڈٹرجنٹ کی تلاش میں ہوں جو کہ میرے دل کے اندر ویسی صفائی پیدا کردے جیسی صفائی مجھے ان اشتہاروں میں نظرآتی ہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک بڑاگول چکر ہے وہاں ایک بڈھا بابا ایک نیم کے پیڑ کے نیچے ٹھیلا لگاتا ہے‘ اس کیساتھ اس کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے‘میری چھوٹی آپا ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ میں ذرا اس ٹھیلے سے سبزی لے لوں‘اس بڈھے بابے کے لڑکے نے آپا کو کچھ گوبھی‘ بینگن اور کچھ ٹماٹر بڑی احتیاط کے ساتھ دیئے اور آپاکی پسند اور کہنے کے مطابق الگ الگ لفافوں میں ڈال کے وہ رکھتارہا۔ اب وہ لڑکا آپا جی کے پرس کی جانب دیکھ رہا ہے کہ وہ اسے پیسے دیں گی‘لیکن آپا ایک چکر کاٹ کے اس لڑکے باپ کی طرف چلی گئیں گو یہ ایک معمولی اور عام سی بات تھی لیکن لڑکے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے یہ آپ بھی بخوبی جان سکتے ہیں اور کوئی صاحب دل جان سکتا ہے کہ اس بچے کے دل میں کیا بیتی ہو گی ایک دن میں اپنی بڑی آپا کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا آپا نے اسی ٹھیلے کو دیکھ کر کہا کہ رکواس ٹھیلے والے کے پاس تو کتنی اچھی سٹرابری اور شہتوت ہیں وہ لے لیتے ہیں۔ آپا نے ٹھیلے والے سے کہا کہ کالے شہتوت ذرا کھٹے ہوتے ہیں‘ اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جی یہ بہت میٹھے ہیں۔ وہ شہتوت بھی آپا نے لیے‘ آپا اسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دیا اور ساتھ پوچھا کہ کتنے روپے ہوئے۔ اس نے کہا کہ اٹھارہ روپے اورکچھ پیسے ہوئے ہیں اور بڑی آپا نے اس لڑکے کو ہی پیسے دے دیئے کیونکہ اس نے ہی سروس کی تھی۔ اس لڑکے نے فٹافٹ ٹھیلے پر سے رکھی بوری کا پہلو اٹھایا اوربقایاریز گاری نکال کر آپا کو دے دی۔ میں یہاں پھر دل کی اور دل میں پنہاں شفقت کے اس خانے کی بات کرتا ہوں جو خانہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)