ماضی کی یادیں بہت سارے چہروں کو سامنے لے آتی ہیں معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی سرگذشت میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک بوٹو بھائی تھے۔ ان کے مکان پر ایم ایچ نقوی کے نام کی تختی لگی تھی لیکن ایک دنیا انہیں بوٹو صاحب کہتی تھی اتنے مقبول عام تھے کہ انہیں پیار کے نام سے پکارنے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس فہرست میں خواجہ ناظم الدین سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم تک سینکڑوں لوگ شامل تھے۔ ناظم الدین یوں کہ انہیں طرح طرح کی مرغیاں پالنے کا بہت شوق تھا اور بوٹو بھائی فن مرغبانی کے استاد تھے چنانچہ پرائم منسٹر ہاؤس میں ٹہلتے ہوئے چلے جاتے تھے اور باہر کھڑا ہوا حفاظتی عملہ انہیں سلیوٹ کرتا تھا بیگم بھٹو سے ان کے مراسم کا سبب یہ تھا کہ بوٹو بھائی کو شکار کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ اپنی جیپ لئے پورے سندھ میں مارے مارے پھرتے تھے اور جو کچھ مار کر لاتے تھے اس کاگوشت احباب میں تقسیم ہوا کرتا تھا۔اپنی اس سندھ گردی کی وجہ سے وہ صوبے کے کونے کونے سے واقف تھے اور صوبے کا بچہ بچہ ان کو جانتا تھا‘دیہاتوں میں بہت مقبول تھے۔ جہاں جاتے تھے کچہری لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور غریب سندھیوں سے اپنے خالص کانپور ی لہجے میں باتیں کیا کرتے تھے ان کی باتوں کا انداز بھی سب سے جدا تھا مثلاً کسی گاؤں کے اوطاق یا چائے خانے میں بیٹھے ہیں‘ ان کے گرد مقامی باشندوں کا مجمع ہے‘ انہیں اپنا کوئی کارنامہ سنا رہے ہیں ”ارے صاحب صبح سے شام تک میں نے اسی مرغابیاں مار دیں پھر کہتے تھے ”کتنی؟“ سارا مجمع زیر لب کہتا تھا اسی کہنے لگے محمد خاں جونیجونے اس علاقے میں چالیس سکول کھولے کتنے؟اس روز بوٹو بھائی میری علالت کی خبر سن کر عیادت کو آئے‘ دیر تک میرے سفر کا احوال پوچھتے رہے میں نے بتایا کہ صحت یاب ہوتے ہی مجھے زیریں سندھ کا دورہ کرنا ہے دریا کا ڈیلٹا دیکھنا ہے اوراس کے سمندرمیں گرنے کا منظر دیکھنا ہے یہ سنتے ہی تن کر بیٹھ گئے ارے صاحب‘ یہ تو بہت آسان کام ہے۔ میں نے نئی جیپ خریدی ہے آپ کو لے چلوں گا اور ڈیلٹا کا ایک ایک گاؤں دکھاؤں گاکم سے کم دو سو بستیاں ہیں کتنی؟“اور اس سے پہلے کہ میں زیر لب دو سو کہتا‘ وہ اپنی نئی جیپ کی چابیاں بجاتے ہوئے اٹھے اور کہتے ہوئے چلے گئے کہ ”اگلے ہفتے تک ٹھیک ہو جائیے۔اس نوید نے ٹانک کا کام کیا اور ایک ہفتے میں میری توانائی لوٹ آئی۔ بوٹو بھائی اپنی جیپ دھلوا کر اور پٹرول بھروا کر آئے اور ہمارا زیریں سندھ کا سفر شروع ہو گیا۔