افغانستان میں امریکہ کی ہزیمت ناک شکست پر گذشتہ تین ہفتوں میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ محض ابتدائیہ ہے اس طلسم ہو شربا کا جو اگلے کئی عشروں میں لکھی جائیگی امریکی مورخین اور محققین اگر آج تک ویت نام جنگ پر شائع ہونیوالی سینکڑوں تصنیفات سے مطمئن نہیں ہوئے تو افغان جنگ تو امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ تھی اس شکست کے اسرارو رموز پر لکھی جانے والی کتابیں بہت جلد ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کرلیں گی امریکہ کی شکست کسی بھی دوسرے ملک کی پسپائی سے نہایت مختلف ہے اسے ایک ایمپائر کے زوال کے تناظر میں دیکھا جارہاہے امریکی دانشور‘ صحافی اور سیاستدان تلملا اٹھے ہیں کہ ایسا آخر کیوں اور کیسے ہواآج اکثر لوگ تازہ ترین امریکی پسپائی کو محض جنوبی ایشیا میں ایک سپر پاور کی شکست سمجھ رہے ہیں مگر اس ہزیمت نے ایک سلطنت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں اسکا اندازہ آجکل یورپ میں اٹھنے والی امریکہ مخالف آوازوں کے شور سے لگا یا جا سکتا ہے ان نیٹو اتحادیوں کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ امریکہ کہیں بھی نہیں گیا بلکہ میدان میں موجود ہے انٹونی بلنکن اور لائیڈ آسٹن ایک مرتبہ پھر یورپی ممالک کے دورے کر رہے ہیں صدر بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ افغان جنگ کا خاتمہ اسلئے کیا گیا ہے کہ امریکہ چین اور روس کی طرف توجہ دے سکے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ توجہ کتنی کارگر ہوتی ہے چین افغانستان میں امریکہ کے چھوڑے ہوے خلا میں داخل ہونیکی تیاری کرچکا ہے اسے انتظار صرف اس بات کا ہے کہ طالبان کس قسم کی حکومت بناتے ہیں یہ حکومت اگر مغربی ممالک کی تجویز کردہ inclusive یاجامع حکومت نہ ہوئی تو کیا چین اسے تسلیم نہیں کریگا ایسا ہوتا اسلئے نظر نہیں آ رہا کہ چین کی وزارت خارجہ نے سولہ اگست کو یعنی کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک دن بعد اعلان کیا تھا کہ ”چین افغان عوام کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنی تقدیرکا فیصلہ خود کریں اور چین افغانستان کیساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کا خواہاں ہے“ صاف ظاہر ہے کہ بیجنگ نہ صرف طالبان کیساتھ دیر پا تعلقات رکھنا چاہتا ہے بلکہ وہ اس خطے میں ایک بڑی طاقت کا کردار بھی ادا کرنے پر آمادہ ہے۔افغانستان میں گذشتہ بیس سالوں میں چین نے کبھی بھی امریکہ کو نہیں للکارا بلکہ اس نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں اب اس خطے کے کئی ممالک آج اسے ایک بڑی طاقت کے طور پر خوش آمدید کہہ رہے ہیں بیجنگ دیکھتا رہا کہ امریکہ کیسے دھیرے دھیرے اپنی بنائی ہوئی دلدل میں دھنس رہا تھااس نے طویل عرصے تک اس Strategic Patience یعنی تزویراتی صبر کا مظاہرہ کیا جس کے بارے میں آج امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ اس صبر کے نہ ہونے کی وجہ سے اکلوتی سپر پاور کو پسپا ہونا پڑا لیکن دوسری طرف بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افغان جنگ جب بھی ختم ہوتی اسکا اختتام ایسا ہی ہونا تھا چین کے تزویراتی صبر کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیس برس تک کئی اعتبار سے اپنے جنگ زدہ ہمسائے کی مدد کرتارہا اس نے کئی ملین ڈالر دیکر افغانستان میں ہسپتال بنائے’صحت عامہ کی دیگر سہولیات مہیا کیں‘ سولر پاور سٹیشن بنائے اور باہمی تجارت میں اتنی سرمایہ کاری کی کہ وہ آج افغانستان کا سب سے بڑاتجارتی پارٹنر ہے اب وہ طالبان کو بغیر تردد کے وہ سب کچھ دے سکتا ہے جسکی اجازت اسکا بزنس ماڈل دیتا ہے چین نے امریکہ کی طرح کبھی بھی کسی ملک کو اربوں ڈالر دیکر اسکی خود مختاری خریدنے کا سودا نہیں کیا بیجنگ نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نہیں بنائے جو امریکہ کی مرضی کے مطابق پسماندہ ممالک کو کڑی شرائط پر قرضے دیتے ہیں چین اسکے بر عکس ہر تجارتی پارٹنر کیساتھ انفرا سٹرکچر کو ترویج اور ترقی دینے کے منصوبوں پر کام کرتا ہے اسکا شروع کیا ہوا Belt and Road Initiative جنوبی ایشیا میں انفرا سٹرکچر کا سب سے بڑ اپروجیکٹ ہے افغانستان اب تک اسکا حصہ نہیں بنا تھا ایک چینی محقق Zhou Bo کی تحقیق کے مطابق ”چین اگر پشاور تا کابل موٹر وے کے ذریعے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کو توسیع دے تو اسکی رسائی ایک کم فاصلے والے روٹ کے ذریعے مشرقی وسطیٰ کی منڈیوں تک ہو سکتی ہے“ چین کو دینے کیلئے افغانستان کے پاس ایک کھرب ڈالر کی ایسی معدنی دولت موجود ہے جسکی بیجنگ کو سخت ضرورت ہے اس معدنی دولت میں لیتھیم‘ لوہا‘ تانبا اور مقناطیسی دھات شامل ہیں بعض ماہرین کی رائے میں چین کسی غیر محفوظ ملک میں سرمایہ کاری کا رسک نہیں لیتا مگر چین کی کمپنیاں کئی غیر مستحکم ممالک میں سرمایہ کاری کی شہرت رکھتی ہیں طالبان اس بات کی ضمانت دے چکے ہیں کہ وہ اپنے ملک کو ہر لحاظ سے بیرونی سرمائے کیلئے محفوظ اور پر کشش بنائیں گے افغانستان میں سرمایہ کاری چین کو مشرقی ترکستان تحریک کو کچلنے کے مواقع بھی فراہم کرے گی۔چین افغانستان دوستی کے اس خوشگوار منظر نامے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ کابل کو اگلے چند دنوں میں کارو بار مملکت چلانے کیلئے جس سرمایے کی ضرورت ہے چین ابھی تک اسکے بارے میں خاموش ہے امریکہ کی افغان جنگ بظاہر ختم ہو چکی مگر اس تباہ حال ملک کا جو سرمایہ امریکی بینکوں میں منجمد کر دیا گیا ہے اسکی جنگ ابھی شروع ہوئی ہے اس نئی جنگ کے آغاز میں امریکہ نے افغانستان کے ریزرو فنڈز میں رکھے ہوئے 9.5 ارب ڈالر روک لئے ہیں اور اسکے ساتھ ہی آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ بھی چار سو ملین ڈالر کی رقم کابل کو مہیا نہ کرے بعض ماہرین کی رائے میں یہ غیر اعلانیہ Sanction یا اقتصادی پابندی ہے گذشتہ دو عشروں میں امریکہ نے جس ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے اربوں ڈالر لگائے اب وہ اسی کو زمین بوس کرنے کیلئے ناجائز حربے استعمال کر رہا ہے امریکہ کے Treasury Departmentکے اعداد و شمار کے مطابق واشنگٹن نے گذشتہ دو عشروں میں افغانستان میں 145 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں کی۔ اس رقم کا ایک بڑا حصہ افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور تنخواہوں پر بھی لگا مگر جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی اسی سرمایے سے ہوئی اسکے علاوہ افغان حکومت کے گیارہ ارب ڈالر کے سالانہ اخراجات بھی نیٹو ممالک ادا کرتے رہے اب طالبان ان اخراجات کا بندوبست کیسے کریں گے کیا خطے کے ممالک مل جل کر ہر سال اتنی خطیر رقم کا بندوبست کر سکتے ہیں اس سوال کے جواب میں بعض ماہرین کی آرا ء کا ذکر اگلے کالم میں ہو گا۔
اشتہار
مقبول خبریں
مشرق وسطیٰ‘ یحییٰ سنوار کے بعد
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ڈونلڈ ٹرمپ‘ ناکامی سے کامیابی تک
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
کیا ٹرمپ کا امریکہ ایک مختلف ملک ہو گا
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ
عتیق صدیقی
عتیق صدیقی