ہر حال میں شکر کرنا

جن لوگوں کو اللہ عزوجل نے خوشحالی اور تندرستی جیسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کریں اور شکر کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ مصیبت زدوں کیساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔اللہ کے نیک بندوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تکلیف دہ بات کونظر انداز کرتے ہیں اور حسن اخلاق سے پیش آتے ہیں بیمار شخص کسی کو برا بھلا کہہ دے تو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے‘مہمان نوازی مسلمان کاشعار ہے اپنی طاقت کے مطابق ضرور کرنی چاہئے اورمہمانوں کے آنے سے پریشان نہیں ہوناچاہئے‘شیخ سعدی ؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک بزرگ سرزمین وخش میں رہتے تھے انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں گوشہ نشینی اختیار کرلی یہ بزرگ ان لوگوں میں سے تھے جو دکھاوے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے اس بزرگ کا بھی ایک بدخواہ پیدا ہوگیا اور وہ جہاں جاتا اس بزرگ کی برائی کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا اس بزرگ کوکسی طرح یہ بات معلوم ہوگئی کہ فلاں شخص ان کے متعلق یہ خیالات رکھتا ہے آپ اس شخص کاحال سن کر آبدیدہ ہوگئے اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے اللہ! تو اس شخص کو توبہ کی توفیق عطا فرما اور اگر وہ برائیاں واقعی میری ذات میں ہیں جنہیں وہ بیان کرتا ہے تو مجھے ان سے بچنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے ان برائیوں سے بچا شیخ سعدیؒ اس حکایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں دشمن کی کسی بات کا برا لگے تو ایسے زندگی بسر کرو کہ اس کی کہی ہوئی بات غلط ثابت ہوجائے اور جو مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرے وہ میرا دوست ہے شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ معروف کرخی ؒ کے ہاں ایک ایسا مہمان آیا جس کا بیماری نے برا حال کررکھا تھا وہ مہمان ہر وقت تکلیف کی شدت سے کراہتا رہتا تھااور شور مچاتاتھا‘ آپ نے اس کی خدمت اور تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن بیماری نے اس کو کچھ ایسا چڑ چڑا کر رکھا تھا کہ وہ کسی سے بھی صحیح طریقے سے بات نہ کرتا تھا آپ اس کی باتیں مسکرا کر سنتے رہے لیکن آپ کی اہلیہ برداشت نہ کرسکیں اور انہوں نے کہا کہ ایسے بداخلاق اور احسان فراموش کی خدمت سے بہتر ہے اسے گھر سے باہر نکال دیں ایسے انسان کے ساتھ نیکی کرنا اچھی بات نہیں معروف کرخیؒ نے فرمایا کہ اس نے جو کچھ کہا مجھے اس کی کچھ تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ میں جانتا ہوں جس تکلیف میں یہ مبتلا ہے اس میں مبتلا لوگوں کا حال یہی ہوتا ہے۔شیخ سعدی ؒ اپنے ایک غریب دوست کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے پاس اپنی غربت کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا کہ میرے بچے زیادہ ہیں اور میری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں اب مجھ میں فاقہ کی ہمت باقی نہیں رہی اگر آپ سفارش کریں تو مجھے کوئی مناسب نوکری مل جائے میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر یاد رکھوں گا۔شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا کہ بادشاہ کی نوکری کے دو رخ ہوتے ہیں اول رزق کی امید او ر دوم جان کا خطرہ اور عقل مندوں کی رائے کے مطابق رزق کی امید پر جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ اے دوست! بے شک تو دیانت داری کیساتھ کام کرے گا مگر ان حاسدوں کا کیا جو حسد میں مبتلا ہوں گے اور بادشاہ کے سامنے تیری جھوٹی شکایت کریں گے اور پھر جھوٹ بول کر تجھے غلط ثابت کریں گے تیرے حق میں بولنے والا کوئی نہ ہو گا لہٰذا تیرے لئے بہتر یہی ہے کہ تو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر اور بادشاہ کی ملازمت کا خیال دل سے نکال دے۔ دریا میں اگرچہ بے شمار فائدے ہیں مگر سلامتی کی فکرہے تو کنار ے پر رہنا سیکھ۔میرے دوست نے جب میری باتیں سنیں تو مجھے سے ناراض ہو گیا او ر کہنے لگا کہ یہ کوئی عقل مندی کی باتیں نہیں جو تم نے کہیں۔شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعدمیں دوسرے دوست کے ہمراہ حج بیت اللہ کیلئے چلا گیا جب میں حج کی سعادت کے بعد واپس لوٹا تو میرا وہی دوست پھر پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ میرے استقبال کیلئے موجود تھا۔ میں نے اس کی یہ حالت دیکھی تو حیرانگی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کیا ہوا؟اس نے کہا کہ آپ کا کہا سچ ثابت ہوا اور میرے حاسدوں نے مجھ پر خیانت کا الزام لگایا۔ بادشاہ نے صحیح معنوں میں تفتیش نہیں کروائی اور میرے تمام رفقاء اور دیرینہ ساتھی سب سچ بولنے سے ڈرتے تھے لہٰذا خاموش رہے اور تمام پرانے تعلقات کو نظر انداز کر دیا۔ مجھے مختلف سزاؤں میں مبتلا کیا گیا اور پھر جب اس ہفتہ حجاج کی آمد کی اطلاع ملی تو مجھے قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی۔ میں اپنی پہلی حالت پر واپس لوٹ آیا۔(حکایات سعدی سے ماخوذ)