بڑے لوگوں کا چارج سنبھالنا

میں نے اپنے ضلع کا چارج تو بعد میں سنبھالا سب سے پہلے دفتر کے ناظر نے بہ نفس نفیس خود میرا چارج لے لیا۔ ناظر صاحب سے پہلے ملاقات کچھ غیر رسمی طور پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ انہوں نے میرے سامان کا جائزہ لیا میرے ساتھ محض ایک سوٹ کیس اور ایک بستر بند کو دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہو گئے۔ ضابطہ کی رو سے ڈپٹی کمشنر کی آمد سے پہلے ان کے بیرے او ر خانساماں کو آنا چاہئے اس کے بعد ان کے سامان کی ویگن اور موٹر کار آنی چاہئے پھر صاحب بہادر خود تشریف لائیں اور ان کے جلو میں اگر چند کتے اورکچھ گھوڑے بھی ہوں تو عین شایان شان ہے۔ناظر صاحب کی معیت میں ایک کار‘ دو بڑے ٹرک اور کوئی درجن بھروردی پوش لوگ تھے۔ کار انہوں نے شہر کے ایک رئیس سے طلب کی ہوئی تھی ٹرک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی نے پیش کئے تھے اور وردی پوش لوگ دفتروں کے چپڑاسی اور چوکیدار تھے سامان کی طرف سے مایوس ہو کر ناظر صاحب نے مجھے ہر دیگر کار لائقہ سے یاد فرمانے کی ہدایت کی‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اگر مجھے کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ ناظر صاحب کو رخصت کرکے میں ڈاک بنگلہ کے بیرے سے کچھ گرم پانی کی فرمائش کی۔ گرم پانی کا نام سن کریکایک دروازے کا پردہ ہلا‘ اور اس کے عقب سے ناظر صاحب نمودار ہوئے۔ حضور گرم پانی غسل خانہ میں تیار ہے۔ انہوں نے اعلان کیا۔منہ ہاتھ دھوکر میں نے ڈاک بنگلہ کے بیرے سے چاہئے مانگی۔ اس فرمائش پر ایک بار پھر ناظر صاحب نے کہا کہ حضور ڈائننگ روم میں چائے تیار ہے۔ ڈائننگ روم میں چائے کم تھی اور مرغ زیادہ تھے۔ ایک قاب میں مرغ مسلم تھا۔ دوسری میں مرغ روسٹ تھا ایک پلیٹ میں چکن سینڈ وچ تھے کچھ طشتریاں مٹھائیوں سے بھری رکھی تھیں۔ دائیں بائیں پیسٹری کے ڈبے تھے اور ان سب کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر کچھ چائے بھی موجود تھی۔ چائے کا سیٹ چمکدار سلور کا بنا ہوا تھا اور چائے دانی پر مالک کا نام اور پتہ نقش کیا ہوا تھا۔ایک دو بار میں نے کوشش کی کہ خانساماں کو بلا کے اسے اپنے کھانے کے متعلق کچھ ہدایات دے دوں‘ لیکن ہر بار میں اردلی نے مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ حضور کا سارا بندوبست ناظر بابو کی تحویل میں ہے۔ایک روز مسٹر غلام محمد نمونیے میں مبتلا تھے‘ انکے ایک عزیز دوست میرے پاس بکرے ذبح کرنے کی چھری لے کر آئے‘ چھری چاندی کی طشتری میں دھری ہوئی تھی اور اوپر ایک سبز ریشمی رومال ڈالا ہوا تھا‘ انہوں نے کہا کہ میں اس چھری پر مسٹر غلام محمد کا ہاتھ پھرالاؤں کیونکہ وہ اس سے چند بکرے ذبح کرکے انکی صحت اور سلامتی کیلئے صدقہ دینا چاہتے ہیں‘ میں نے مسٹر غلام کو یہ بات بتائی تو انہوں نے بڑی خوشی سے چھری پر اپنے دونوں ہاتھ کئی بار پھیردیئے‘ اس کے بعد میں نے کہا ”اگر آپ اجازت دیں تو میں ان صاحب کے ساتھ اپنا ڈپٹی سیکرٹری بھی بھیجنا چاہتا ہوں تاکہ صدقہ کی رسم چھری پر ہاتھ پھرانے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ بکرے بھی ضرور ذبح ہوں۔“یہ بات سن کر مسٹر غلام محمد کی آنکھوں میں تیز تیز چمک آئی اور انہوں نے زندگی میں پہلی بار مجھے شاباش دے کر کہا ”ہاں، ہاں ضرور“بھیجنا، بعد میں مجھے رپورٹ بھی دینا۔واپس آکر جب میں نے ان صاحب کو بتایا کہ مسٹر غلام محمد کی خواہش ہے کہ صدقہ کے وقت ان کا ڈپٹی سیکرٹری بھی ان کی نمائندگی کرے تو ان کا منہ بن گیا اور وہ بڑے بدمزہ ہو کر میرے کمرے سے نکلے۔خوشامد کی قینچی عقل وفہم کے پرکاٹ کر انسان کے ذہن کو آزادی پرواز سے محروم کردیتی ہے خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے، رفتہ رفتہ اس کے اپنے حواس معطل ہوجاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا، سنتا، بولتا، سونگھتا اور محسوس کرتا ہے جواسے دکھایاجاتاہے خوشامدی کیڑے کو کون کی طرح گھس کر اس کے وجود میں پلتے رہتے ہیں‘ جس سربراہ مملکت کی کرسی کو خوشامدیوں کی دیمک لگ جائے وہ پائیدار نہیں رہتی‘ اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اسکی رائے دوسروں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے، کوئی ایسا مائی کالال نہ تھا جو مسٹر غلام محمد کے روبرو کسی جائز نکتے پر بھی اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہو‘ وہ سب ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور ان کے منہ پر جی حضوری کا دم بھرتے تھے‘ لیکن ان کی پیٹھ پیچھے سب ان کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کے احکام کو یا تو بالکل نظر انداز کردیتے تھے یا اپنی خواہش کے مطابق توڑ مروڑ کر عملی جامہ پہناتے تھے۔(شہاب نامہ سے اقتباس)