جنرل ضیاء الحق طویل عرصے تک حکمران رہے ان سے ملاقاتوں کی رودادمیں معروف براڈ کاسٹراور پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر لکھتے ہیں کہ تقریباًدس سال 1977-88 میں نے جنرل صاحب کو بہت قریب سے دیکھا اور انکی شخصیت کے بارے میں بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوئیں جو دلچسپ بھی ہیں اور حیرت انگیز بھی ان کی حکمرانی کے پہلے سال کہ جب وہ چند مہینے میں دو اور کبھی کبھی تین بار تقریر ریکارڈ کرانے ٹیلی ویژن پر آتے تھے ان کی ہرتقریر میں خود ریکارڈ کراتا تھا اور اس طرح ان کے ساتھ گفتگو کا موقع بار بار ملتا تھا میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اور بہت سی اچھی بری باتوں کے علاوہ جنرل ضیاء کی کامیابی کا ایک راز ان کی سادگی بھی تھی وہ ہرکسی سے بڑے تپاک سے ملتے نرم لہجے میں گفتگو کرتے کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوتا تھا کہ یہ پاکستان بلکہ عالم اسلام کے ایک طاقتور آدمی ہیں ان کا رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ کوئی بھی بات کرنے یا کسی بات کا جواب دینے سے پہلے انسان کو خوف محسوس نہیں ہوتا تھا انہوں نے اپنی شخصیت کے گرد ایسا لبادہ اوڑھا ہوا تھا کہ ان سے ڈر نہیں لگتا تھا حالانکہ اب خیال آتا ہے کہ سب سے زیادہ ڈرانہیں سے لگنا چاہئے تھا میں نے ابتدائی زمانے میں جب جنرل ضیاء الحق تقریر کی ریکارڈنگ سے پہلے ادھر ادھر کی باتیں کیا کرتے تھے کئی بار ان سے ایسا کچھ بھی کہہ دیا جو شاید مجھے کہنا چاہئے تھا مثلاً ان کی عادت تھی کہ بولتے بولتے اپنے مصنوعی دانتوں کو زبان پر رکھ کر ہونٹوں سے باہر نکال لیتے تھے یہ حرکت بے حد بد نما معلوم ہوتی تھی خاص طور پر ٹی وی کیمرے پر ایک روز انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ٹیلی ویژن کے ماہر ہیں مجھے بتائیں میں کس طرح بہتر نظر آسکتا ہوں چونکہ بات بڑے بے تکلفانہ ماحول میں ہورہی تھی اس لئے میں نے ہمت کر کہہ دیا کہ آپ دانتوں کو زبان پر رکھ کر باہر نہ نکالا کریں انہوں نے مخصوص انداز میں اپنی مونچھوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے میری بات کو غور سے سنا اور چوتھے روز میں نے سنا صدر صاحب ڈینٹل سرجن سے ملنے گئے ہوئے اگلی بار وہ آئے تو یہ عجیب دور ہوچکا تھا۔اسی طرح میں نے ایک روز خود ہی ان سے کہا کہ ’سر یہ جو آپ تقریر کا مسودہ پڑھتے پڑھتے زبانی بولنا شروع کردیتے ہیں اور اپنا چشمہ آنکھوں سے ہٹا کر ماتھے پر رکھ لیتے ہیں اس سے ہمیں بڑی پرابلم ہوتی ہے انہوں نے دلچسپی سے پوچھا وہ کیا میں نے کہا آپ کی عینک کا عکس کیمرہ میں آتا ہے اور شاٹ خراب ہوجاتا ہے انہوں نے پوچھا پھر مجھے کیا کرنا چاہئے کیونکہ بعض اوقات کچھ باتیں مسودہ میں ڈالنا ضروری ہوتی ہیں میں نے کہا سر آپ ایسا کرتے ہوئے عینک ماتھے پر رکھنے کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے لیا کریں میں نے مزید کہا ویسے بھی آپ کے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں آپ کو انہیں زیادہ سے زیادہ کیمرہ پر دکھانا چاہئے یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔