افغان معیشت اور چین کا تعاون

طالبان کی عبوری کابینہ اگر امریکہ کی توقعات کے عین مطابق بھی ہوتی تو اس صورت میں بھی واشنگٹن نے اسے تسلیم نہیں کرنا تھا اسکی ایک وجہ تو صدر بائیڈن کی مقبولیت میں ہونیوالی کمی ہے جو کابل ائیر پورٹ پر ہونیوالی ہڑبونگ اور افراتفری کا نتیجہ ہے اور دوسری وجہ ریپبلیکن پارٹی کے طالبان حکومت کے خلاف زوردار بیانات کا تسلسل ہے جو دھیما پڑتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔دوسری طرف طالبان مغربی ممالک کے تحفظات کو جس حد تک گوارا کر سکتے تھے انہوں نے کر لیا انکی عبوری کابینہ کی ساخت ظاہر کرتی ہے کہ وہ سخت معاشی مشکلات کے باوجود مغربی ممالک کے تمام مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں پندرہ اگست کے بعد واشنگٹن‘ آئی ایم ایف اوریورپی یونین نے وہ تمام اقتصادی امداد منجمد کر دی ہے جو گزشتہ بیس برس سے افغانستان کو دی جا رہی تھی ان نا مساعد حالات میں طالبان کیسے کاروبار مملکت چلائیں گے اس سوال پر بھی امریکہ میں غوروخوض ہو رہا ہے دو امریکی محققین جو افغانستان کی اقتصادیات پر کتابیں لکھ چکے ہیں نے حال ہی میں ایک مضمون میں اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ نئی افغان حکومت کے پاس ایسے ذرائع موجود ہیں جن پر انحصار کر کے وہ اس مشکل وقت سے گذر سکتے ہیں Graeme Smith اور  David Mansfield  واشنگٹن کے  Overseas Development Institute  میں  Consultant Researchers  ہیں انہوں نے انیس اگست کو شائع ہونیوالے ایک مضمون میں افغان حکومت کے ذرائع آمدنی کا جائزہ لیا ہے۔اس تجزیے میں انکے پیش نظر یہ سوال ہے کہ کل تک سرکاری اخراجات کیلئے کابل کو چار ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہوتی تھی جو امریکہ مہیا کرتا تھا اسکے علاوہ جو مالی خسارہ ہر سال ہوتا تھا اسکا 75 فیصد مغربی ممالک کی حکومتیں اور انکے ڈونرز پورا کرتے تھے اب یہ خطیر رقم کہاں سے آئیگی اسکے جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ کابل پر قبضے سے پہلے ہی طالبان اپنے ملک کے اہم ترین ذرائع آمدن پر قبضہ کر چکے تھے Even before their blitz into the capital Taliban had claimed the country's real economic prize  اس اقتصادی انعام کی تفصیل بیان کرتے ہوے مصنفین نے لکھا ہے کہ اس ملک کے تجارتی راستے‘ شاہراہیں‘  پل اور زیر زمین معیشت جنوبی ایشیا کی اکانومی کو متحرک رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان محققین کی رائے میں آمدنی کے ان زرخیز ذرائع اور چین‘ روس‘ ایران اور پاکستان کی افغانستان کیساتھ تجارت کرنے کی ضرورت طالبان کو مغربی ممالک کا دست نگرنہیں بننے دے گی نیویارک ٹائمز کے اس مضمون میں لکھا ہے کہ کل کے افغانستان میں جو کچھ ہوگا وہ تو غیر یقینی ہے مگر یہ طے ہے کہ اس ملک میں بہت کچھ مغربی طاقتوں کی مرضی کے خلاف ہو گا زیر زمین معیشت کے بارے میں مصنفین نے لکھاہے کہ افیون‘ حشیش اور دیگر منشیات ہی وہ کاروبار نہیں ہیں جن سے طالبان کو آمدنی ہوتی ہے انہیں اصل آمدنی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی نقل و حرکت پر لگائے ہوئے ٹیکسوں سے ہوتی ہے In size and sum the informal economy dwarfs international aid یعنی حجم اور مالیت کے اعتبار سے بیرونی امداد زیر زمین معیشت کے مقابلے میں بہت کم ہے جنوب مغربی صوبے نمروز کے بارے میں مصنفین نے لکھا ہے کہ ”ہماری ریسرچ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان نے تاجروں سے اپنے زیر نگیں علاقوں میں پٹرول‘ خوراک اور دیگر اشیا کی نقل و حرکت پر لگائے ہوے ٹیکسوں کے ذریعے 235 ملین ڈالر ایک سال میں اکٹھے کئے“ اس صوبے کے حصے میں بیرونی امداد کے صرف بیس ملین ڈالر ہر سال آتے تھے محققین کی رائے میں نمروز جیسا صوبہ جو ایران اور پاکستان دونوں کی سرحدوں پر واقع ہے کسی بھی معیشت دان کو یہ سکھا سکتا ہے کہ افغانستان کی اکانومی کو کن بنیادوں پر استوار کیا جا سکتا ہے۔موسم گرما میں طالبان نے سب سے پہلے جس صوبائی دارلحکومت پر قبضہ کیا وہ زارنج تھا یہ صوبہ ہر سال حکومت کو ایران کی سرحد پر ہونیوالی اشیائے ضروریہ کی آمدو رفت پر لگائے جانیوالے ٹیکسوں کی صورت میں 43.2  ملین ڈالر مہیا کرتا ہے اس رقم کے علاوہ زارنج ہر سال پچاس ملین ڈالر شہریوں پر مختلف ٹیکس لگا کر بھی اکھٹے کرتا ہے ماہرین کے مطابق اس صوبے کی زیر زمین اکانومی کو بھی اگر اسکی آمدنی میں شامل کر لیا جائے تواسکی معیشت کا سالانہ حجم 176ملین ڈالر بنتا ہے مصنفین کی رائے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک اسلئے سرحدوں پر ہونیوالی تجارت کو نہیں روک سکتے کہ اس صورت میں انہیں جو نقصان ہوگا وہ اسکے متحمل نہیں ہو سکتے ایران کی مثال دیتے ہوے لکھا گیا ہے کہ طالبان نے  ملک کی سرحد کے جس حصے پر قبضہ کیا ہوا تھا صرف اسکے ٹیکسوں کی آمدنی گذشتہ سال 384 ملین ڈالر تھی یہ بارڈر کراسنگ ان تین میں سے ایک تھی جو دونوں ممالک کی طویل سرحد پر واقع ہیں اس تحقیق کے مطابق ہر سال ان تین مقامات پر سے دو ارب ڈالر کا تجارتی سامان گذرتا ہے تجارت کے اتنے بڑے حجم کو کوئی ملک بھی نہیں روک سکتا مصنفین نے لکھا ہے کہ دو ارب ڈالر کا تخمینہ صرف سرکاری اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے اسمیں اگر زیر زمین سرحدی تجارت کے حجم کو شامل کیا جائے تو وہ بھی دو ارب ڈالر سے کم نہیں ہے اسطرح سے افغانستان اور ایران کی سرحد پر ہونیوالی سالانہ تجارت چار ارب ڈالر بنتی ہے اسی طرح پاکستان کی سرحد پر ہونیوالی غیر سرکاری تجارت بھی سینکڑوں ملین ڈالر ہے ا س تحریر کے مطابق طالبان بہت جلد جنوبی ایشیاکی علاقائی تجارت کے Major Players یعنی بڑے کھلاڑی بن جائیں گے افغانستان کی سرکاری اور زیر زمین معیشت کے دیگر ذرائع پرمزید گفتگو اگلے کالم میں ہو گی۔