کتاب کس حال میں ہے 

کتابوں کی وقعت اور قدر و قیمت کے حوالے سے رضا علی عابدی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ یہفروری کا دوسرا ہفتہ تھا، اسلام آباد کی پہاڑیوں پر صبح کی پیلی دھوپ پھیل رہی تھی اور دور قراقرم کی چوٹیوں پر برف اب چمکنے لگی تھی۔ میں ہوائی اڈے سے باہر نکلااور فوراً ہی ٹیکسی لے لی تاکہ جلد سے جلد اپنے ہوٹل پہنچ جاؤں۔اور وہاں پہنچ کر آئینے میں یہ بھی نہ دیکھا کہ سر کے بال درست ہیں یا نہیں، ٹائی کی گرہ سیدھی ہے کہ نہیں، میں لپکتا ہوا اسلام آباد سیکرٹریٹ کی جلسہ گاہ میں پہنچا۔ وہاں حکومت پاکستان کے زیر اہتمام دستاویزوں کی حفاظت کے موضوع پر بین الاقوامی مجلس مذاکرہ جاری تھی۔د وڈھائی سو مندوب بڑی سنجیدگی سے بیٹھے اتنے ہی سنجیدہ سوال پرغور کر رہے تھے۔ سوال یہ تھا کہ وہ کاغذ، وہ دستاویزیں، وہ کتابیں اور وہ نسخے کیونکر محفوظ کئے جائیں جن کی بنیادوں پر قوموں کی، ملکوں اور معاشروں کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ وہ خط وہ عرضیاں وہ احکامات اوروہ فرمان جو وقت کے دھاروں کے رُخ موڑ دیا کرتے ہیں، انہیں حالات کی گرد سے،لمحات کے سیلاب سے اور قدامت کے بدن میں پلنے والے کیڑوں سے کس طرح بچایا جائے۔ ملک بھر میں یہ فرض انجام دینے والے حکام، افسر، اساتذہ، تحقیقی اداروں کے نگران اور دفتر خانوں کے نگہبان وہاں جمع تھے، چین سے کئی ماہر آئے تھے جو صدیوں پرانی پوتھیوں کو محفوظ رکھنے ماہر تھے، برٹش لائبریری اور انڈیا آفس لائبریری کے مہتمم آئے تھے جو دنیا زمانے کی کتابوں، نقشوں، فائلوں اور رجسٹروں کو کچھ اس طرح سینت سینت کر رکھتے ہیں کہ جیسے آتے جاتے لمحوں کی روداد کو وقت کی دستبرد سے بچا بچا کر رکھنے کی ساری ذمہ داری ان پر آن پڑی ہے۔حاضرین جلسہ مصروف تھے اور میں مسرور تھا برصغیر میں اب یہ احساس جاگ رہا ہے کہ تاریخ کے ورثے کو بچایا جائے، آنے والی نسلوں کیلئے وہ تمام نشانیاں چھوڑ دی جائیں جو بعد میں مشعل بن کر ان کی راہوں میں نور پھیلائیں۔ مگر احساس کی تہہ میں کتنے ہی درد اور کتنے ہی کرب چھپے ہوئے ہیں، یہ گزری صدیوں کی نہیں حالیہ برسوں کی بات ہے  جب اعلیٰ روایات اور تہذیب کے اسی گہوارے میں اور اسی سرزمین میں نہ معلوم کتنی دستاویزیں مٹی میں اور نہ جانے کتنے کتب خانے خاک میں ملے ہیں۔ایک اور مقام پر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ اپشی سے ذرا اوپر بکریوں کا سرکاری فارم ہے جن سے پشمینہ حاصل ہوتا ہے وہی نرم اور ملائم اون کہ سرینگر میں جس کی ایک ایک سادہ اور معمولی شال بارہ بارہ ہزار روپے کی تھی‘ میں فارم میں پہنچا تو اسی چرواہے سے ملاقات ہوئی جو ابھی ان پتھریلی زمینوں میں نغموں کی فصلیں اگا رہا تھا‘اس کا نام محمد علی خان تھا‘ سیدھا سادہ‘ بھولا‘تمیز دار اور ہر بات میں سرسر کا اضافہ کرنے والا‘ محمد علی خان نے مجھے پشمینے کی بکریوں کے بارے میں کچھ بتایا اس فارم میں سات بکریاں ہیں سال میں ایک باران کے بالوں میں کنگھی کی جاتی ہے اور کنگھی میں پھنس کر جو ملائم بال اترتے ہیں‘وہی رئیسوں کی شالوں‘سوئٹروں‘جرابوں اور دستانوں میں ڈھل جاتے ہیں‘ایک ایک بکری سے دوسو سے لے کر پانچ سو گرام تک پشمینہ اترتا ہے یہ بکریاں بس یہیں اتنے اونچے علاقوں میں ہوتی ہے‘نیچے میدان انہیں راس نہیں آتے چونکہ قیمتی ہوتی ہیں اس لئے ان کی نگرانی کے لئے چرواہے رکھے جاتے ہیں وہ نہ ہوں تو پہاڑوں سے اترنے والے درندے انہیں کھا جائیں ان کی حفاظت کرتے کرتے چرواہوں کو ان سے لگاؤ تو ضرور ہوتا ہوگا بکریاں خود بھی اپنے چھوٹے چھوٹے دلوں میں اپنے ان رکھوالوں کے لئے وہ جذبہ محسوس کرتی ہوں گی جن کا ان کے ہاں کوئی نام نہ ہوگا بس یہ کہ ان میں کوئی تصنع نہ ہوگا کوئی بناوٹ نہ ہوگی کوئی غرض نہ ہوگی میں ان کے دلوں میں جھانک نہ سکا البتہ محمد علی خان سے بات کرتے کرتے باتوں کارخ ادھر کو ایک بار ضرور موڑا‘میں نے پوچھا’اس ویرانے میں یہی بکریاں آپ کی ساتھی اور رفیق ہوتی ہیں ان سے تو آپ کو محبت ہوجاتی ہوگی؟“ وہ بولے’جی سر‘ یہ تو ہمارے بچوں کی طرح ہیں ہم انہیں ہر صبح گھاس ڈالتے ہیں ان کوچرانے کیلئے لے جاتے ہیں اور صبح شام انکے شیڈوں کو صاف کرتے ہیں انہیں اچھی طرح دودھ پلاتے ہیں اور پانی بھی پلاتے ہیں۔میں نے پوچھا ان کو پہچانتے ہیں آپ؟انکے کوئی نام وغیرہ رکھتے ہیں؟ جواب ملا‘ نہیں ان کے نام نہیں ہوتے بلکہ ان کے کانوں پر الگ الگ نمبر لگاتے ہیں انکے نمبر سے پتہ چلتا ہے کہ کون سی بکری کمزور ہے‘کون سی بیمار ہے میں نے پوچھا آپ تو اپنی بکریوں سے اتنی محبت کرتے ہیں بکریاں بھی آپ سے محبت کرتی ہیں یا نہیں‘وہ آپ کو پہچانتی ہیں؟ وہ ہمیں خوب پہچانتی ہیں جو بڑے بڑے پہاڑوں میں چررہی ہوتی ہیں مگر ہم انہیں آواز دیتے ہیں تو آجاتی ہیں اور کبھی شیڈ کے اندر ہوں اور ہماری آواز سنیں تو اندر سے چلانے لگتی ہیں وہ ہم سے بہت پیارکرتی ہیں۔