افغان معیشت‘  جنگ اور بھوک

پاکستان‘ ایران اور تاجکستان کی سرحدوں پر ہونیوالی کراس بارڈر تجارت افغان معیشت کا ایک اہم ستون ہے صرف پاکستان کی سرحد پر ہونیوالی تجارت کا ذکر کرتے ہوے نیو یارک ٹائمز نے انیس اگست کے ایڈیٹوریل میں لکھا ہے A single border crossing to Pakistan, captured in July, brings in tens of millions of dollars a year in illegal revenue ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ صرف سرحدوں پر ہونیوالی تجارت کے ٹیکس طالبان کو جنوب مشرقی ایشیا کی تجارت کا Major Player بنا دیں گے اسی اخبار نے افغان معیشت کے ایک دوسرے پہلو کے بارے میں تین ستمبر کی اشاعت میں یہ خبر دی ہے There is a sprawling global network of informal lenders and back room bankers called hawala یعنی  افغانستان میں غیر رسمی قرضے دینے والوں اور عقبی کمروں کے بینکاروں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے جسے حوالہ کہا جاتا ہے اس خبر کے مطابق دنیا بھر سے افغان نہ صرف اس ہنڈی حوالے کے ذریعے اپنے رشتے داروں کو کثیر سرمایہ بھیجتے ہیں بلکہ اسی ذریعے سے افغان طالبان کو بھی بیس برس تک مالی امداد آتی رہی اخبار کے مطابق اگر حوالہ ڈیلروں کے پاس کیش ختم ہو جائے تو ملک کے بڑے شہروں میں کاروبار ٹھپ ہو جائیگا یہ صورتحال اب حقیقت کا روپ دھار رہی ہے بیرونی امداد ختم ہو چکی ہے اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں افغان کرنسی کی قیمت نصف رہ گئی ہے اور امریکہ نے 9.4بلین ڈالر کے ریزرو فنڈز منجمد کر دیئے ہیں آئی ایم ایف نے چھ سو ملین اور جرمنی نے چار سو ملین ڈالر کی امداد روک لی ہے اس گھمبیر صورتحال کے بارے میں رپورٹر نے لکھا ہے The taliban won the war in Afghanistan and an economic crisis may be their prize یعنی طالبان نے افغانستان میں جنگ تو جیت لی ہے مگر انکا انعام ایک اقتصادی بحران ہے اس خبر کے رپورٹر Alexander Stevenson  نے افغان معیشت کی تباہ حالی کی بات کو بڑھاتے ہوے لکھا ہے کہ یہ ملک اب پوری طرح انٹرنیشنل بینکنگ سسٹم سے کٹ چکا ہے اس طویل خبر میں صحافی نے کہیں بھی یہ سوال نہیں پوچھا کہ افغانستان کو اس حال پر پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے امریکہ بیس برس تک اس ملک کی معیشت کا کرتا دھرتا بنا رہا اور آج پونے چار کروڑ آبادی کے اس ملک میں اگرنصف سے زیادہ لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں تو اسکا ذمہ دار کون ہے امریکہ کپڑے جھاڑ کر چلا گیا اور واشنگٹن کے صحافی اعدادو شمار دیکر ثابت کر رہے ہیں کہ افغانستان دیوالیہ ہو چکا ہے اور طالبان خالی خزانے کیساتھ ملک نہیں چلا سکتے سوال یہ ہے کہ یہ ناکامی طالبان کی ہے یا اس عالمی طاقت کی جس نے اس ملک کو اس حال پر پہنچایا ہے یہ سوال نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے جسے کوئی نہیں سنتا۔بجائے اسکے کہ ایک نئی حکومت کو اسکے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے الٹا اس سے ضمانتیں مانگیں جا رہی ہیں اس نفسا نفسی کا شافی جواب ہر کسی کے پاس موجود ہے اور بہت سوں نے مونگ پھلی کے دانوں جتنی اشیائے ضرورت بھی کابل بھجوا دی ہیں چین نے تیس ملین ڈالر اور امریکہ نے چونسٹھ ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر کے میدان مار لیا ہے مگر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل Antonio Guterresنے پیر کو جینیوا میں ایک ”ہائی لیول یو این کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہوے کہا ہے کہ”کئی ملین افغان موسم سرما کے آنے سے پہلے خوراک سے محروم ہو جائیں گے اور ایک ملین افغان بچوں کیلئے اگر جلد از جلدخوراک کا بندوبست نہ کیا گیا تو وہ موت کا شکار ہوجائیں گے“  سیکرٹری جنرل نے یہ بھی کہا کہ گذشتہ ایک ماہ میں افغانستان میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘  بنیادی عوامی خدمات کا نظام منہدم ہو چکا ہے اور پچھلے ایک سال میں جنگ میں شدت آنیکی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو ئے ہیں انٹونیو گٹیریز نے پیر کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوے یہ خوشخبری سنائی کہ اس کانفرنس میں بین الاقوامی ڈونرز نے ایک بلین ڈالر سے زیادہ امداد دینے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر وہ سب یہ کہہ رہے ہیں کہ طالبان کا ریکارڈ کیونکہ انسانی حقوق کے باب میں اچھا نہیں اسلئے وہ انہیں امداد دینے پر راضی نہیں ہیں اس نقار خانے میں دوسرا مضمحل سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک کا افغانستان‘ عراق‘ شام‘  لیبیا‘ یمن اور درجنوں افریقی ممالک میں انسانی حقوق کا ریکارڈ کیسا ہے یہ سوال انکی سمجھ میں اسلئے نہیں آتا کہ وہ تو امدادی ڈالروں کے چیک ہوا میں لہرا رہے ہیں انکا انسانی حقوق کا ریکارڈ کیسے خراب ہو سکتا ہے القصہ مختصر آج افغانستان کے عوام اگر بھوک‘ افلاس‘ تنگدستی‘ بیروزگاری اوردیوالیہ پن کا شکار ہیں تو اسکے ذمے دار صرف اور صرف طالبان ہیں وہ اقوام جو دو عشروں تک ان مظلوم لوگوں کی سرزمین پر دندناتی رہیں وہ پاک پوتر اور عن ا لخطا ہیں کیونکہ انہوں نے اب ایک ارب ڈالر دینے کااعلان کیا ہے۔میں افغان طالبان کی حمایت دوسری کئی وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے بھی کر رہا ہوں کہ افغانستان کے اندر اور باہر دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسی طاقت نہیں جو آج اس ملک کو سنبھال سکے دو بڑی عالمی طاقتیں اپنا بوریا بسترا یہاں سے گول کر کے جا چکی ہیں اس بد نصیب ملک کے ہمسایوں اور عالمی برادری کو طالبان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انکے چھوڑے ہوے فساد اور انتشار کو سنبھالنے کیلئے اس دھرتی کے بیٹے موجود ہیں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سب طالبان سے ضمانتیں مانگنے کی بجائے انکی مدد کر کے اپنے گناہوں کا کفارہ  ادا کریں افغانستان کی معیشت کو امریکہ نے کیسے اس حال پر پہنچایا اسکا ذکر اگلے کالم میں ہو گا(نوٹ‘  کالموں کے اس سلسلے کا عنوان تبدیل کرنیکی وجہ بھی میں آگے چل کر بیان کروں گا)۔