اعزاز کی بات

بعض اوقات عام گفتگو میں بھی بہت بڑے منصوبے طے پاجاتے ہیں‘ایسے ہی ایک پراجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے معروف صحافی رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ بی بی سی کی سروس میں ایک روز ڈیوڈ پیج نے مجھ سے پوچھا”رضا! تمہیں شیر شاہ سوری یاد ہے؟‘میں نے کہا ”ہاں“انہوں نے پوچھا ’کیوں؟‘میں نے کہا ’اس نے پشاور سے کلکتے تک ایک سڑک بنوائی تھی‘ جرنیلی سڑک“بس۔ اس طرح اپنی تعمیر کے پونے پانچ سو سال بعد اس تاریخی شاہراہ کا ذکر اس شان سے چھڑا کہ ایک عالمی نشریاتی ادارے نے فیصلہ کیا کہ اس عظیم سڑک کے موضوع پر ایک دستاویزی پروگرام تیار کرکے نشر کیا جائے میں نے کہا ”مگر اس پر تو بہت روپیہ خرچ ہوگا“ جواب ملا”روپیہ ایجاد کرنے والے بادشاہ کے نام پر اتنا تو ضرور ہونا چاہئے“یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی‘ دو ہفتے سرکاری اور چار ہفتے ذاتی لگاکر میں نے کتب خانہ کے نام سے جو دستاویز تیار کی تھی اس کے بارے میں اردو سروس کے اس وقت کے سربراہ ڈیوڈ پیج کا خیال تھا کہ اگر اس کا انگریزی ترجمہ کرکے کسی یونیورسٹی میں جمع کرادوں تو مجھے پی ایچ ڈی کی سند مل جائے گی‘اس دن میں بہت محظوظ ہوا‘ جب مجھے خیال آیا کہ ہو نہ ہو‘ یہ 1945ء کی بات ہے‘ جب تاریخ کے موضوع میں شیر شاہ کا ذکر پڑھا تھا‘ پورے چالیس سال پہلے پڑھا ہوا سبق بس اتنا ہی یاد تھا‘ اس شام میں لپک کر گھر آیا‘ اپنے کتب خانے سے رام آشرے شرما کی کتاب ”شیر شاہ اور اس کا عہد“نکالی اور سات سو صفحوں کی کتاب تین دن میں پڑھ لی‘ غرض یہ کہ میرا ہوم ورک شروع ہوگیا‘ میں نے سفر کی تیاری شروع کردی‘ وہ تیاری کیا تھی؟ پشاور سے کلکتے تک راہ میں پڑنے والے تمام شہروں میں ہمارے عزیز سامعین آباد تھے‘ اپنی فہرستوں میں سے ان کے نام ٹھکانے چن چن کر نکالنے تھے‘ اس کا سبب سیدھا سادہ تھا۔آپ کہیں جائیں اور وہاں کوئی مقامی رہبر نہ ہو تو آپ کا کام دوگنا دشوار ہوجاتا ہے‘ کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں‘ کس سے ملنا ہے اور کس سے نہیں‘ یہ گُر کی باتیں اسی مقام اور اسی علاقے کا واقف کار ہی بتا سکتا ہے‘ اگر کوئی چاہے کہ یہ کام کتابوں اور نقشوں کی مدد سے کرلے تو وہ عمر بھر سر ہی کھپاتا رہ جائے۔