چاند کی 

آغا ناصر اپنے سفر نامے میں مشہور آبشارنیاگرا کی سیر کا ذکر اپنے مخصوص دلچسپ اور معلومات افزاء انداز میں کرنے کیساتھ انسان کے چاند پر اترنے کے واقعے کی تفصیل لکھتے ہیں کہ ہماری پہلی منزل نیا گرا آبشار تھی نیا گرا دنیا کی دوسری بڑی آبشار ہے یہ کینیڈا کے صوبے اسٹاریو اور امریکی ریاست نیویارک کے درمیان دونوں ملکوں کی بین الاقوامی سرحد پر واقع ہے دونوں ملکوں کے علاقوں کو اس مقام پر ایک تیز رفتار چیختا چنگھاڑتا دریاجدا کرتا ہے‘نیا گرا آبشار کے پرشکوہ اور سحر آفریں نظارے کیلئے ہر سال دنیابھر سے لاکھوں سیاح آتے ہیں نیا گرا آبشار کی سیر اور کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ایک دن قیام کے بعد اگلے روز ہم واپس امریکہ آگئے‘بافلو کے بعد ہماری اگلی منزل نیویارک شہر تھا یہ وہ دن تھا جب انسان چاند پراترنے والا تھا انیس کی خواہش تھی کہ ہم کسی صورت ٹیلی ویژن پر یہ تاریخی منظر دیکھ سکیں یہ واقعی دنیا کی تاریخ کا ایک یادگار واقعہ تھا وہ لمحہ جب دنیا کا پہلا انسان چاند کی سطح پر قدم رکھے گا چاند کا سارا رومانس ختم ہونے والا تھا اردو شاعری کا وہ المناک دن آگیا تھا جب چاند کی تشبیہات اور چاندنی کے حسن کو بیان کرنے والے احساسات شاید بے وقعت ہوجائیں گے میں نے انیس سے کہا‘ یار پھر اس بڑھیا کا کیا بنے گا جو چاند پر بیٹھی چرخہ کاتا کرتی ہے‘چاند پر آدمی کے پہنچ جانے کے بعد بچے اپنے ماموں سے محروم ہونیوالے ہیں؟ انیس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیاوہ گاڑی چلاتے ہوئے گنگنانے میں مصروف تھا‘ریڈیو پر رواں تبصرہ جاری تھا وہ بتا رہا تھا خلائی جہاز اپالو نمبر گیارہ کا کمانڈر نیل آرم سٹرانگ دنیا کا وہ پہلا انسان بننے والا ہے جس کو چاند پر قدم رکھنے کا اعزاز ملے گا جب ہم بافلو جاتے ہوئے کسی مضافاتی علاقے سے گزر رہے تھے تو انیس خان نے ایک بستی کے قریب گاڑی روک لی اور کہا اب ہم ٹیلی ویژن پر انسان کو چاند پر اترنے کا منظر دیکھیں گے انیس نے کار گاؤں کی ایک چھوٹی سی سڑک کے کنارے پارک کی اور ہم تینوں گاڑی سے اتر کر ایک گھر کے دروازے پر جاپہنچے‘جو گلی کا سب سے پہلا گھر تھا انیس نے دروازے پر دستک دی ذرا وقفہ کے بعد ایک بزرگ خاتون نے اپنی لرزتی آواز میں اندر سے دریافت کیا ’کون ہے؟ انیس خان نے خالص امریکی لہجہ میں انہیں ساری کیفیت بتا دی ہم نیویارک جارہے ہیں مگر جیسا کہ آپ جانتی ہیں اسوقت دنیا کی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ ظہور پذیر ہونیوالا ہے انسان چاند پر اتر رہا ہے ہم ٹیلی ویژن پر یہ منظر دیکھنا چاہتے ہیں اسلئے چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں اپنے گھر میں آنے کی اجازت دیں‘دروازے کی دوسری جانب کچھ دیر خاموشی رہی شاید بڑی بی کچھ سوچ رہی تھیں ممکن ہے یہ اندازہ کررہی ہوں کہ ہم سچ کہہ رہے ہیں یا نہیں ’مگر میں گھر میں بالکل اکیلی ہوں‘ ایک طویل وقفے کے بعد اس نے جواب دیا آپ سب غیر ہیں میں نے اس طرح اپنے گھر میں آپ کو آنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہوں؟ انیس خان نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے آہستہ آہستہ کہا ماما ہم شریف لوگ ہیں میں نے آپ کو بالکل سچ بات بتا دی ہے لیکن آپ کو شک ہے تو ہم واپس چلے جاتے ہیں مگر ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ ایک امریکی بزرگ خاتون نے ہمیں یہ نظارہ دیکھنے سے محروم رکھا‘ ہم تینوں دروازے کے سامنے سے واپس جانے کے لئے مڑے غالباً بڑی بی دروازے  کے سوراخ سے ہمیں دیکھ رہی تھی ابھی ہم چند ہی قدم گئے ہوں گے کہ اسکی کانپتی آواز آئی’آجائیے! میں دروازہ کھول رہی ہوں ہم پلٹے اور اسکے گھر میں داخل ہوگئے وہ کمرے کے عین وسط میں ایک بندوق ہاتھ میں لئے کھڑی تھی انیس خان نے بڑے مسخرے انداز میں مجرموں کی طرح اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھالئے بڑی بی اس کی اس اس حرکت پر کھلکھلاکر ہنس پڑیں۔کسی بھی ادارے میں ہڑتال معمولات کو متاثر کرکے رکھ دیتی ہے معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنی یادداشتوں میں ایک ہڑتال کا ذکر کرتے ہیں جو منفرد تھی‘وہ لکھتے ہیں کہ جاپان میں قیام کے دوران ہمارے دو بڑے مسئلے تھے ایک کھانا اور دوسرا زبان‘ جاپانی کھانا ہمیں ایک آنکھ نہیں بھایا‘ ہر چیز اس قد کچی ہوتی تھی کہ حلق سے نوالہ اتارنا مشکل ہوتا تھا‘ یہاں تک کہ صبح کے ناشتہ میں بھی آملیٹ یا ابلا ہوا انڈا بالکل کچا اور بدمزہ معلوم ہوتا۔ ایک رات جب کسی پارٹی سے میں دیر گئے واپس ہوا تو میرے کمرے کے فرش پر ایک لفافہ پڑا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ”ضروری اطلاع“ میں نے لفافہ کھولا تو اس میں ا یک مختصر سا خط تھا جسے پڑھ کر میں بہت حیران ہوا‘یہ کیفے ٹیریا میں کام کرنے والے کارکنوں کی طرف سے تھاکہ ”کل سے ملازمین کی یونین نے ہڑتال کرنیکا فیصلہ کیا ہے چونکہ انتظامیہ نے ہمارے مطالبات ماننے سے انکار کردیا ہے‘ ہڑتال کی وجہ سے کینٹین بند رہے گی مگر مہمانوں کی سہولت کیلئے ورکرز یونین نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کل صبح سے ایک گھنٹہ پہلے آئیں گے اور مہمانوں کے ناشتہ کا حسب معمول انتظام کریں گے اس زحمت کیلئے ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں۔لنچ کا وقت آیا تو ورکرز یونین کی طرح TIC کی انتظامیہ نے بھی اپنا فرض ادا کیا انہوں نے باہر کے کسی ریستوران سے سستے لنچ باکسز منگوائے تاکہ کیفے ٹیریا بند ہونے کی وجہ سے مہمانوں کو لنچ کے لئے سینٹر سے باہر جانے کی زحمت گوارا نہ کرنا پڑے‘ میں نے دوپہر کھانے کے وقفہ میں انتظامیہ کے ایک عہدے دار سے دریافت کیا کہ قصہ کیا ہے تو اس نے بڑے پرسکون انداز میں جذباتی ہوئے بغیر جواب دیا ”ورکرز کے بیشتر مطالبات ناجائز ہیں‘ مذاکرات جاری ہیں اور امید ہے شام تک کوئی فیصلہ ہوجائے گا“ اور ایسا ہی ہوا‘رات کے کھانے سے پہلے جب ٹی وی لاونج کی چہل پہل شروع ہوئی تو ساری لڑکیاں ہنستی مسکراتی‘ اپنے اپنے کام پر لوٹ آئیں‘ ہڑتال ختم ہوچکی تھی۔آخری ایک ہفتہ جاپان کی سیر کیلئے مختص تھا‘ ہماری پہلی منزل کو بے شہر تھا شہر میں لاتعداد تاریخی یادگاریں موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر جاپان کا بڑا اہم ثقافتی اور مذہبی مرکز رہا ہوگا۔ ایک ہفتہ کی سیر و تفریح کا سفر ”اوساکا“ پر جا کر ختم ہواتھا‘ اوساکا جاپان کا قدیم دارالحکومت ہے اور تقریباً وسط میں ہے‘ لگتا ہے جیسے شہر نے خلیج اوساکا کو اپنی بانہوں میں لیا ہوا ہے۔