ناقابل فراموش یادیں 

قدرت اللہ شہاب اپنی زندگی کے یادگار لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدارت کا کام جنرل ایوب نے بڑی محنت‘ لگن‘ باقاعدگی اور سلیقے سے شروع کیا سب فائلیں وہ غور سے پڑھتے تھے اور ان پر احکام بھی اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے روز کی روزفائلیں نپٹا دیتے تھے کچھ دن میں‘کچھ رات کے وقت کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی فائل اگلے روز کیلئے اٹھا رکھی ہو ہر روز اپنی ڈاک بھی پوری دیکھتے تھے کچھ خطوط خود جواب دینے کیلئے منتخب کرلیتے تھے باقی میرے حوالے کردیتے تھے اس زمانے میں صدر کے نام جتنے خط آتے تھے ان سب کے جواب ضرور دیئے جاتے تھے۔ایک روز پنجاب کے کسی گاؤں سے ایک دل جلے کا خط آیا جس میں بڑی سخت زبان استعمال کی ہوئی تھی اور کچھ گالی گلوچ بھی تھی اس شخص کا کوئی چھوٹا سا معاملہ محکمہ مال میں اٹکا ہوا تھا اور کئی بار رشوت ادا کرنے کے بعد بھی سلجھنے میں نہ آتا تھا اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے ساتھ انصاف نہ ہوا تو وہ ساری عمر صدر ایوب کو بدعائیں دے دے کر مریگا میرے عملے نے بہت کہا کہ اس قسم کا خط صدر کو نہ دکھایا جائے کیونکہ اسے پڑھ کر وہ خواہ مخواہ غصے میں آئیں گے یا پریشان ہوں گے‘لیکن میں نے اس خط کو ان کی خدمت میں اس تجویز کے ساتھ پیش کیا کہ اس کا جواب خود صدر مملکت دیں لاہور کے اگلے دورے میں اس شخص کو گورنر ہاؤس میں طلب کرکے اس کی بات سنیں اور اس کا معاملہ گورنر کے سپرد کرکے جب تک وہ انجام تک پہنچ جائے اس کا پیچھا نہ چھوڑیں یہ تجویز صدر ایوب کو پسند آگئی اور اس پر عمل کرکے انہوں نے وقتاً فوقتاً بہت سے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے چھوٹے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد دی صدر ایوب کا گھریلو ماحول بھی بڑا سادہ اور خوشگوار تھا بیگم ایوب خاموش طبع‘مرنجان‘مرنج اور پروقار خاتون تھیں ملک کی خاتون اول کے طور پر انہوں نے کبھی ذاتی پبلسٹی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ایک اور جگہ قدرت اللہ شہاب رقم طراز ہیں کہ صدرایوب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی کی شادی ہوئی تو سادگی میں یہ تقریب بھی اپنی مثال آپ تھی راولپنڈی سے انکے ساتھ پرسنل سٹاف کے فقط ہم چار پانچ آدمی ان کے گاؤں ریحانہ گئے انکے آبائی مکان کے ایک کھلے احاطے میں درختوں کی چھاؤں میں چند کرسیاں اور کچھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں وہاں بیٹھ کر ہم نے بارات کا استقبال کیا نکاح کے بعد کھانا ہوا اور انتہائی سادگی کے ساتھ رخصتی ہوگئی اس تقریب میں صرف گاؤں کے کچھ احباب اوربرادری کے لوگ شریک ہوئے نہ باجاگاجا نہ ڈھول ڈھمکا‘ نہ تحفے تحائف‘ جس سادگی سے شادی کی تقریب ہوئی تھی اسی سادگی سے ہم نے اخبار میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر چھپوا دی ٹی وی کا دور تو ابھی نہ آیا تھا لیکن ریڈیو پاکستان کے کسی بلیٹن میں اتنی سی خبر بھی نہ آئی  ایک روز میں کسی کام سے انکے پاس گیا تو ایک ایسا ہی خوشامدی ٹولہ انہیں اپنے نرغے میں لئے بیٹھا تھا مجھے دیکھتے ہی وہ لوگ پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے بھی پڑ گئے کہ صدر مملکت کے امیج کو فروغ دینے کا ایسا اچھا موقع کیوں ضائع کردیا؟ جب انکا غوغا بند ہوا تو میں نے بڑے ادب سے کہا اگر اس موقع پرآپ صاحبان بھی مدعو ہوتے تو آپ کوبھی ضرور محسوس ہوتا کہ اس تقریب کی سادگی میں بڑا خلوص تھا اب اسے اشتہاری سٹنٹ میں تبدیل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں میری بات تو غالباً کسی کو پسند نہ آئی لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس موضوع پر مزید چوں چوں بند ہو گئی۔  قدرت اللہ شہاب اپنے سفر حج کے دوران ایک مصری سرمایہ دار محمد نوفل کا واقعہ لکھتے ہیں کہ بحری سفر کے دوران۔۔یوں بھی بحر احمر میں گرمی اپنے پورے شباب پر تھی سمندر کی لہریں جہاز سے ٹکراتی تھیں تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہمارے چاروں طرف بڑی بڑی دیگوں میں ابلتا ہوا پانی جو ش کھارہا ہے  ہر مسافر کا چہرہ پسینے کی جھالر میں لپٹا ہوا تھا اس کے باوجود عازمین حج کی ٹولیاں بڑے اطمینان سے عرشے پر جابجا بیٹھی تھیں کچھ لوگ تلاوت قرآن میں مصروف تھے کچھ تسبیح کررہے تھے کچھ حج کی دعائیں یاد کرنے میں لگے ہوئے تھے ایک کونے میں محمد نوفل صاحب بھی کرسی پر بیٹھے تھے اور کٹی ہوئی برف کی پوٹلی بار بار سرپر پھیر رہے تھے۔دھوپ میں اطمینان سے بیٹھے ہوئے عازمین حج کی طرف دیکھ کر محمد نوفل نے سرد آہ بھری اور کہا’میں بھی ان لوگوں کا ہم وطن ہوں لیکن ہمارے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے یہ غریب لوگ ہیں‘ان کے سینے میں قناعت کی اتنی خنکی ہے کہ گرم موسم کی شدت ان پر کوئی اثر نہیں کرتی میرا معاملہ دوسرا ہے میں بڑا کامیاب تاجر اور صنعتکار ہوں میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں اس پر ہن برسنے لگتا ہے لیکن میرا دل نہیں بھرتامیرے اندر ہر وقت حرص کی بھٹی سلگتی رہتی ہے سردی کے موسم میں بھی برف کے بغیر میری پیاس نہیں بجھتی۔محمد نوفل نے برف کی ڈلی منہ میں ڈال کر کچھ دیر اسے چوسا اور پھر بولا یہ تپش میرے مقدر میں لکھی ہے میں اسے چھوڑنا بھی چاہوں تو چھوڑ نہیں سکتا کیونکہ دولت کمانے کے علاوہ مجھے اور کوئی ہنر نہیں آتا۔(شہاب نامہ سے اقتباس)