اٹلی میں تھا تو وہاں مجھے جب گھبراہٹ کے آثار پیدا ہونے لگے تو میری لینڈ لیڈی جس کے گھر میں ٹھہرا ہوا تھا یا رہتا تھا اس کا نام کا تانی تھا وہ کہنے لگی کہ پروفیسر تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں پریشان ہوگیا ہوں‘مجھ پر بڑا دباؤ ہے وہ کہنے لگی کہ تم ایک دن چھٹی کرلومیں نے مسلسل 23دن کام کیا تھا اور کوئی چھٹی نہیں کی تھی میں نے اپنے دفتر والوں سے کہا کہ میں آج نہیں آؤں گا تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے خواتین وحضرات اس دن میں نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ نئے کپڑے پہن کر میں دفتر پہنچا لیکن کام کرنے کے مقصد سے نہیں بلکہ یہ دیکھنے کہ میرے کو لیگ کیا کررہے ہیں دفتر میں وقت گزارنے کے بعد میں سڑھیاں اترا تو وہاں قریب ہی ’سانتا ماریا‘ میں ایک گرجے کے نیچے انڈر گراؤنڈ بازار ہے اس میں چلا گیا وہاں عورتیں چیزیں بیچ رہی تھیں اور وہاں آوازیں دے دے کر چیزیں بیچنے کا رواج ہے ایک خاتون نے مجھے بلا کر کہا تم یہ جالی کے دستانے لو وہ بڑے اچھے بنے ہوئے دستانے تھے وہ کہنے لگی کہ یہ تمہاری منگیتر کے لئے ہیں میں نے کہا کہ میری تو کوئی منگیتر نہیں ہے کہنے لگی بے وقوف کبھی تو ہوگی میں نے کہا نہیں مجھے ان کی ضرورت نہیں لیکن وہ اصرار کرنے لگی کہ میں تمہیں زبردستی دوں گی اور اس نے وہ لفافے میں ڈال کے دے دیئے اب مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے یہ کس کو دینے ہیں۔ اس وقت نہ کوئی میری منگیتر تھی اور بانو قدسیہ کابھی تب کوئی نام ونشان نہیں تھا بہر حال میں نے وہ دستانے لے لئے۔میں وہ دستانے لے کر بازار سے باہر آگیا تو دیکھا کہ ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک سیاہ فام خاتون ایک چھابے میں زردگلاب کا ایک پھول رکھ کر اپنا پیر کھجا رہی تھی اس نے مجھے کہا کہ یہ پھول بڑا اچھا ہے اور اس نے بھی کہا کہ یہ پھول تیری بیوی کے لئے بڑا اچھا رہے گا میں نے وہ بھی ’بڑا خوبصورت ہے‘کہہ کر خرید لیا پھر میں نے سٹیشن پر ٹرام پکڑنے سے پہلے اپنا ایک شام کا محبوب پرچہ(اخبار)خریدا اور میں 77نمبر کی بس میں آکر بیٹھ گیا اس میں ایک بوڑھا سا آدمی جو بظاہر پروفیسر لگتا تھا گلے میں عینک لٹکائے بیٹھا اونگھ رہا تھا میں دھڑم سے سیٹ پر بیٹھا تو اس نے آنکھیں کھولیں۔آپ یقین کریں میرایہ دن خوشی والا گزرا۔جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت‘ صفائی اور جزویات کیساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی نا خوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم اس قدر کیوں مصروف ہو گئے‘ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا‘چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے‘ یہ خوبصورت علاقہ ہے اوراس کے پہاڑوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی سلاجیت پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے ہمارے لیڈرنے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اوروہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کاانتظام تھا‘جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بجے گئے‘اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی کے گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گئے‘بڑی مزیدارہوا چل رہی تھی وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا۔ ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا‘اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے‘ہمارے پاس Protection کیلئے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی‘اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہئے خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخرکار گھر تلاش کر ہی لیا‘جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ (اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات