افغانستان میں ”پراکسی اشرافیہ“ کی اصطلاح کو غلط قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ بیس سال پہلے وہاں طالبعلموں کی تعداد چھ لاکھ تھی جو اب تین کروڑ سے زیادہ ہے اسی طرح دو عشرے قبل وہاں اساتذہ کی تعداد 3500 تھی جو اب ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے انکا کہنا ہے کہ آج افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ سب سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں تین چوتھائی ملک میں بجلی نا پید تھی جب کہ اب نصف سے زیادہ ملک کو چوبیس گھنٹے بجلی ملتی ہے یہ سب دلائل یقیناّّ یہ ثابت کرتے ہیں کہ افغانستان میں گذشتہ بیس برسوں میں ایک سول سوسائٹی بھی قائم ہوئی ہے اور معاشرے میں ایک تبدیلی بھی آئی ہے مگر اب سوال یہ ہے کہ اس سول سوسائٹی کا مستقبل کیا ہے اور اس میں سے کتنے اپنے ملک میں رہنا چاہتے ہیں درحقیقت اس افغان اشرافیہ کا مستقبل ایک جنگی اکانومی کیساتھ جڑا ہوا تھا جسکے ختم ہوتے ہی یہ چمکتی دمکتی عمارت زمین بوس ہو گئی امریکہ نے اگر افغان معیشت کی بنیاد جدید زراعت‘ صنعت‘ تجارت‘ تعمیرات‘ کاروباری اداروں اور آئی ٹی انڈسٹری پر رکھی ہوتی تو کسی کو بھی جہازوں سے لٹک کر ملک چھوڑنے کی ضرورت پیش نہ آتی امریکہ اگر اس قسم کی مضبوط معیشت کی داغ بیل ڈال دیتا تو پھر اسکی فوج کو مترجم‘ کنٹریکٹر‘ ڈرائیور‘ کلرک اور افغان نیشنل آرمی کیلئے فوجی کہاں سے ملتے پھر تو ہر کسی نے ملازمت یا کاروبار کر کے دو وقت کی روٹی کماناتھی پھر کسی کو کیا ضرورت تھی کہ وہ طالبان سے دشمنی مو ل لیکر امریکی فوج میں ملازمت کرتا دراصل ایک مصنوعی معیشت اور ایک پراکسی اشرافیہ تخلیق کرنا امریکہ کی مجبوری تھی اور افغانستان وہ پہلا ملک نہیں جہاں امریکہ نے اس قسم کی بے بنیاد معیشت کی داغ بیل ڈالی اس سے پہلے وہ یہی تجربے کوریا‘ فلپائن‘ کیوبا‘ ویت نام‘ ہیٹی‘ گرینیڈا‘ ال سیلواڈور اور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں کر چکا ہے حملہ آور ملک اگر ایک مصنوعی معیشت کا ڈول نہ ڈالے تو اسکی ملازمت کون کریگا اسکی بندوق کون اٹھائے گا اور اسکے جہازوں سے لٹک کر اپنا ملک چھوڑنے کی کوشش کون کرے گا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لوگ جب عمارتیں‘ شاہراہیں‘ پل‘ ہسپتال‘ سکول اور پاور پلانٹ بنتے ہوے دیکھتے ہیں تو وہ بیرونی حملہ آوروں کے گرویدہ ہو جاتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ تعمیرو ترقی صرف بڑے شہروں میں ہو رہی ہے اس قسم کی عارضی ترقی کے جو فوائد ہمیں نظر آرہے ہیں ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر انکا مستقبل کیا ہے۔افغانستان میں ترقی اور تنزلی کا یہ مدو جزر پہلی مرتبہ نہیں آیا محمد ظاہر شاہ جو افغانستان کا آخری بادشا تھا اس نے 1933 سے 1973 تک حکومت کی وہ 226 سال پر محیط افغان بادشاہو ں کے خاندان (Dynasty) کا آخری بادشاہ تھا اسکے دور کی تعمیر و ترقی کا احوال بیان کرتے ہوے یورپی یونین کی پارلیمنٹ کے ممبر Mick Wallace نے کہا کہ اسوقت افغانستان کی یونیورسٹیوں میں خواتین طالبعلموں کی تعداد نصف کے لگ بھگ تھی‘ اس وقت کے افغانستان میں خواتین ڈاکٹروں کی تعداد چالیس فیصد تھی‘ خواتین اساتذہ کی تعداد ستر فیصد تھی اور تیس فیصد سرکاری ملازمین خواتین تھیں Mick Wallace نے یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں کہا کہ نیٹو ممالک نے اگر بیس برس میں اس ملک کی پانچ یا سات فیصد خواتین کو تعلیم اور ملازمتیں دلوا دیں تو اسکے باوجود یہ تعداد سوویت یونین کے حملے سے پہلے کے افغانستان میں خواتین کی نمائندگی سے بہت کم ہے اور یہ مہمل اور مضمحل ترقی ہمیں اس بات کا حق نہیں دیتی کہ ہم افغانستان کی خواتین کے حقوق پر ہنگامہ کھڑا کر دیں مک والس نے اس دھواں دھار خطاب میں کہا کہ امریکہ نے وہاں 2.2 کھرب ڈالر خرچ کئے جس میں سے دو کھرب میں سے کچھ جنگ پر لگے اور باقی کے سب امریکی کمپنیاں لے اڑیں اس نے پوچھاکہ کیا ہمیں آج تک یہ پتہ چل سکا کہ اس جنگ میں یورپی یونین کے ممالک نے کتنا خرچ کیا اس نے کہا کہ ہم البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یورپی کمپنیوں نے بھی اس جنگ میں خوب مال بنایا مک والس نے پوچھا Do we have anything to show for it یعنی جو پیسہ ہم نے لگایا اسکے عوض کیا کچھ دکھانے کیلئے ہمارے پاس ہے یورپی یونین کے علاوہ امریکہ میں بھی آج پوچھا جا رہا ہے کہ یہ کھربوں ڈالر آخر کہاں خرچ ہوئے نیویارک ٹائمز نے پندرہ ستمبر کے اداریے میں لکھا ہے کہ ہمیں یہ بتایا گیا کہ امریکی سرمایہ افغانستان کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہو رہا ہے But the surreal amount of cash poisoned the country instead مگر اس ماورائے حقیقت کیش نے اس ملک کو زہر آلود کر دیا اس نے امارت اور غربت کی خلیج کو وسیع کر دیا جو لوگ خالی ہاتھ تھے وہ ایک محدود طبقہ امرا کے دشمن ہو گئے اور جیبیں بھرنے والے لوٹ مار میں جت گئے افغانستان میں امریکی سرمایہ کاری پر تیار کی ہوئی سپیشل انسپکٹرجنرل کی حالیہ رپورٹ میں لکھاہے The money spent was far more than Afghanistan could absorb اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عام تاثر یہ تھا کہ افغان لوگ کرپٹ ہیں اسلئے نتائج حاصل نہیں ہو رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کرپشن میں امریکی کمپنیاں بھی شامل تھیں اور اس بے ہنگم انوسٹمنٹ کا نتیجہ ایک Fantasy Economy یعنی خیالی معیشت تھا جو ایک کسینو یا جوا خانے کی طرح چل رہی تھی۔ نیو یارک ٹائمز نے مذکورہ اداریے میں لکھا ہے کہ اس جنگ کا ایک سبق یہ ہے کہ تم ایک فوج کو خرید نہیں سکتے تم اسے صرف کچھ وقت کیلئے کرایے پر لے سکتے ہو جب پیسے کا نلکہ بند ہو جاتا ہے تو پھر تمہارے ساتھ میدان میں کوئی بھی کھڑا نہیں ہوتا اخبار نے لکھا ہے کہ گل آغہ شیرازی ایک وار لارڈ تھا ہم نے اسے گورنر بنا دیا جب طالبان نے اسکے دروازے پر دستک دی تو وہ فوراًبندوق پھینک کر ان سے جا ملا۔یہ تو تھی امریکی میڈیا کی فریاد اب یہی میڈیاساری دنیا کیساتھ ملکر تماشہ کر رہا ہے کہ طالبان اپنا ملک کیسے چلاتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی مغربی ملک نے طالبان کو ایک دھیلا بھی نہیں دینا وہ تو الٹا اس حکومت کے ناکام ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ وہ نئے گھوڑوں پر شرط لگا سکیں خطے کے ممالک میں بھی اتنی سکت نہیں کہ وہ ایک درماندہ حال ہمسائے کی مدد کر سکیں ایسے میں تازہ اطلاعات کے مطابق چین خاموشی سے اس قحط زدہ ملک کی مدد کر رہا ہے تاکہ اسکی روز مرہ کی ضروریات پوری ہوتی رہیں دو عالمی طاقتوں نے چالیس برسوں میں اس دھرتی سے سکون اور خوشحالی چھین کر اسے ایک غیر یقینی مستقبل کے حوالے کر دیا ہے۔