حسن ابدال سے آگے بڑھیں تو واہ چھاؤنی ہے‘یہ الفاظ ہیں رضا علی عابدی کے جو اپنی یاداشتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔آگے لکھتے ہیں کہ وہاں مغلوں کے دور کی بہت بڑی باولی ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے‘ کسی زمانے میں لوگ، ان کے مویشی اور ہاتھی گھوڑے باولی کی سینکڑوں سیڑھیاں اتر کر سیراب ہوا کرتے تھے‘اب لوگ یہ مشقت نہیں کرتے بلکہ پمپ کے ذریعہ پانی کھینچ لیتے ہیں‘ واہ سے آگے سرائے کالاہے‘ جی ٹی روڈ پر یہ چھوٹا سا قصبہ ہے‘ ظاہر ہے کہ کبھی اس جگہ مسافروں کیلئے سرائے رہی ہوگی‘ جہانگیر نے بھی یہاں پڑاؤ ڈالا تھا‘ اس وقت اس جگہ کا نام کالا پانی تھا‘ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شیر شاہ اور مغلوں کے زمانے میں جو ہزاروں سرائیں بنائی گئی تھیں بعد میں ان کے گرد بستیاں آباد ہوتی گئیں‘ خود سرائیں نہیں رہیں البتہ آبادیوں کے نام کیساتھ لفظ ’سرائے‘ جڑا رہ گیا‘ مردم شماری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان پاکستان میں کئی سو شہروں، قصبوں اور دیہات کے ناموں کے ساتھ لفظ ’سرائے‘ لگا ہوا ہے‘ اگرنقشے پر ان تمام مقامات کو لکیروں سے ملایاجائے تو کیا قدیم سڑکوں کا نقشہ خود بخود نہیں ابھرے گا؟جہاں یہ سرائے کالاہے وہاں سے صرف چند کلومیٹر دور ٹیکسلا کے کھنڈر ہیں‘ سرائے کالا سے چار میل آگے مرگلا کی پہاڑی دیوار بن کر کھڑی ہے‘ پہاڑی میں ایک کٹاؤ ہے لیکن اس دن میں سوچنے لگا کہ اس پچیس تیس ہاتھ چوڑے پہاڑی شگاف کے راستے ہزاروں برسوں کے دوران ان گنت قبیلے، قافلے اور لاؤ لشکر گزرے ہوں گے‘ چین، افغانستان، وسطی ایشیا، ایران اور ایشائے کوچک سے چاہے ایک تنہا مسافر آیا ہو چاہے ایک لشکر جرّار، وہ سب مرگلا کے اس کٹاؤ پر چڑھے ہوں گے اور اوپر پہنچ کر انہوں نے دوسری طرف کا نظارہ کیا ہوگا تو تاحدِنگاہ ہندوستان ہی ہندوستان دکھائی دیا ہوگا‘ مرگلا کا یہ تاریخی کٹاؤ ابھی موجود ہے‘ جسے دیکھنا ہو فوراً جاکر دیکھ لے کیونکہ پہاڑی پتھر کاٹ کاٹ کر فروخت کرنے والے بیوپاریوں کی جدید مشینیں اس پہاڑی پر اس طرح ٹوٹی پڑرہی ہیں جیسے قند کی ڈلی پر بھوکی چیونٹیاں‘بعد میں جب انگریزوں نے گرینڈ ٹرنک روڈ کی تعمیر شروع کی تو انجینئروں نے اس پہاڑی میں گہرا درہ کاٹ دیا‘ اس سے آنا جانا آسان ہوگیا‘ البتہ بلندی پر اس سڑک کے آثار ابھی موجود ہیں جو غالباً اکبر نے بنائی تھی تاکہ بھاری توپیں آسانی سے چڑھائی جاسکیں‘ اس درے کے اوپر پہاڑی کی چوٹی پر نکلسن کی لاٹ میلوں دور سے نظر آنے لگتی ہے۔