رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں رقم طراز ہیں کہاس روز میری دلی کی سیر ختم ہوئی اس روز میری چشم تصور مجھے گلی کوچوں میں لئے پھری‘ اس دن جو منظروں کا تانتا بندھا تو یوں کہ ابھی اُبھرتے بھی نہ تھے کہ ڈوب سے جاتے تھے گزرے لمحوں کی ایک یلغار آتی تھی اور سر پر آئی ہوئی گھڑیوں کے ریلے میں بہہ جاتی تھی‘ یوں لگا کہ دیواروں کو اور دروازوں کو گویائی مل گئی۔وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے قریب چچا کبابی کے گولے کے کباب ٗوہ فراش خانے کے شابو بھٹیارے کا شوربہ وہ لال کنویں کے حاجی نانبائی کی سو طرح کی روٹیاں اور وہ چاندنی چوک کے میاں گنجے نہاری والے کی دیگ۔گرمیاں ہیں تو خس کی ٹٹیاں لگ رہی ہیں ہزارے چھوڑے جا رہے ہیں رؤسا تہہ خانوں میں چلے گئے ہیں شام کو لوگ نہا دھو کر پان کی گلوری منہ میں دبائے بیگم کے باغ جا رہے ہیں‘ یا دِلی دروازے سے نکل کر فیروز شاہ کے کوٹلے تک جا پہنچے ہیں۔پھر جو ساون ٹوٹ کے برسا ہے تو پیش دالان کی چھت میں دُہرے جھولے پڑے ہیں اور دو دو لڑکیاں پیر جوڑ کر جھول رہی ہیں گرم گرم پکوان اتر رہے ہیں اور کالی گھٹا لہرانے کے گیت گائے جا رہے ہیں۔مینہ برس کر کھل گیا ہے تو بے فکروں کی ٹولیاں رات رات بھر کیلئے جمنا کنا رے فالیزوں پر جا رہی ہیں ٹھنڈی ریت پر چاندنی کا فرش ہے گیس کے ہنڈے جل رہے ہیں ریڑھیوں پر لد کر کھانا آیا ہے ڈھیروں خربوزے خریدے گئے ہیں کبڈی کے پالے جمے ہیں ٗجوڑیاں پگی جا رہی ہیں جمنا میں چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں کھانے کے بعد خربوزے کھائے جا رہے ہیں ٗآم چوسے جا رہے ہیں اور دو ٹولیوں میں گھٹلیاں چل رہی ہیں نقلیں اتاری جا رہی ہیں ٗ بیت بازی ہو رہی ہے اور غزلیں گائی جا رہی ہیں۔گرمی دُھل گئی ہے تو کنبے کے کنبے اور پاس پڑوسی پالکی گاڑیوں میں بھر بھر کر قطب صاحب کی سیر کو جا رہے ہیں ہجوم کے ہجوم چلے جا رہے ہیں ٗراستے میں فیروزشاہ کے کوٹلے میں ٹھہر گئے ٗاشوک کی لاٹ دیکھی ٗشیر منڈل پر چڑھے ٗامیر خسرو کے مزار اور پھر سلطان جی کی قبر پر حاضری دی۔ ہمایوں کے مقبرے کا چکر لگایا ٗمدرسے میں سستائے اور حوض خاص ہوتے ہوئے قطب صاحب جا پہنچے جہاں میلہ لگا ہے ٗسقے کٹورے بجا رہے ہیں ٗدلی والوں کو تو بس جی اُٹھنے کے بہانے چاہئیں۔جامع مسجد کی سیڑھیوں پر چوک تو ہر روز کا میلہ ہے سارا شہر اُمڈا چلا آتا ہے کھانے پینے کی دھوم ہے ٗوہیں اردو بازار ہے ٗایک قطار سے کتابوں کی دکانیں ہیں ٗ یہیں حسن نظامی ایسٹرن لٹریچر کمپنی ہے یہیں سید وصی اشرف کا کتب خانہ علم و ادب ہے کوئی شاعر ٗکوئی ادیب ایسا نہیں جو یہاں نہ آتا ہو یا پھر نواب خواجہ محمد شفیع کے دیوان خانے میں اتوار کی اتوار شعر و ادب کی محفلیں جمی ہیں اور مشاعرے ہو رہے ہیں۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)