میں اب جب کبھی اپنے بالاخانے کی کھڑکی کھول کے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے ایک لمبی گلی ہوتی ہے جو بالکل سنسان اور ویران ہوتی ہے جب میں اسے دور تک دیکھتا ہوں تو لے دے کے ایک ہی خیال میرے ذہن میں رہتا ہے کہ یہاں وہ شخص رہتا ہے جس نے1982ء میں میرے ساتھ یہ زیادتی کی تھی کہ اس کے سامنے وہ شخص رہائش پذیر ہے جو 1971ء میں میرے ساتھ قطع تعلق کرکے اپنے گھر بیٹھ گیا اور اس کے بعدسے ہم نے ایک دوسرے سے کوئی بات تک نہیں کی سارے محلے میں سارے رشتے کچھ اسی طرح کے ہو چکے ہیں اور باوصف اس کے کہ کہیں کہیں ہم ایک دوسرے سے سلام و دعا بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احوال بھی دریافت کرتے ہیں لیکن اندر سے ہم بالکل کٹ چکے ہیں اور ہمارے اندر جو انسانی رشتے تھے وہ بہت دور چلے گئے ہیں میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کچھ لوگوں کو فیل ہونے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی Failureمیں گزار دیتے ہیں ان کا تعلق ہی ناکامی سے ہوتا ہے‘ انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں میں کامیاب نہ ہوجاؤں خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ میں کامیاب زندگی بسر کرنے لگوں اور ایک اچھا Relaxedاور پرسکون شخص بن کر اس معاشرے کو کچھ عطا کرکے پھر یہاں سے جاؤں‘ان لوگوں میں‘ میں بھی شامل ہوں یہ سارے الزام اور Blames جو مجھ کو میری زندگی میں لوگوں کی طرف سے ملتے رہتے ہیں میں انہیں اکٹھا کرکے گلدستے کی طرح باندھ کر ان کی Catalogکرکے اپنی کاپی یا ڈبے کے اندر ایسے ہی محفوظ کرتا رہتا ہوں جیسے لڑکیاں اپنے البم سجھاتی ہیں۔ گو اب انکے البموں میں بھی پہلے سی تصویریں نہیں رہی ہیں بلکہ ان کے دل کے البموں میں بھی وہ سارے کے سارے دکھ ایسے ہی ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے طعنہ دیا اور فلاں شخص نے مجھے فلاں کہا اور میں نے اسے نوٹ کرکے دل کی ڈائری میں درج کرلیا ٗ یہ چیز کچھ اس شدت کیساتھ عام ہوگئی ہے کہ اس کا نکالنا بھی مشکل ہوگیا ہے‘جب ہم ایسے مسائل لے کر جگہ جگہ مارے مارے پھرتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں کنکھجورے کی طرح چمٹا اور جما ہوا خیال کیسے نکالا جائے اور اس سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔
(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)