علی رضا عابدی اپنی کتاب میں ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میر عطا محمد صاحب گوجرانوالہ کے قدیم باشندے ہیں وہ خود انکے والد اور انکے دادا گوجر انوالہ کے میونسپل کونسلر تھے میر عطا محمد اسی برس کے ہورہے ہیں کوتوالی بازار میں اپنے قدیم لیکن عمدہ مکان میں بیٹھے وہ باتیں کررہے تھے کبھی آج کے دور کی اور کبھی اس زمانے کی جسے وہ ہمارا زمانہ کہتے تھے‘میں نے پوچھا کہ آپکے زمانے میں شہر گوجرانوالہ کیسا تھا؟ کہنے لگے‘یہ شہر جوتھا‘ یہ ایک قصبے جیسا شہر تھا اب تو یہ شہر بن گیا ہے تقریباً دروازوں کے باہر کوئی شاذونادر مکان نظر آتا تھا اب تو یہ باہر میلوں تک پھیل گیا ہے پتہ نہیں لگتا یہ کتنا بڑا شہر ہے میں تو اب کسی جگہ چلا جاؤں تو مجھے پتہ نہیں لگتا کہاں آگیا ہوں‘میں نے کہا کہ آپکے زمانے میں چوری ڈکیتی رہزنی ہوتی تھی؟فوراً بولے‘ہاں ہوا کرتی تھی مگر بہت کم۔انہوں نے یہی جملہ وہرایا میں نے پوچھا یہ جو جی ٹی روڈ تھا اس پر اس قسم کی وارداتیں ہوتی تھیں؟ کہنے لگے کبھی نہیں‘ چوریاں وغیرہ گھروں میں ہوتی تھیں مگر بہت کم ایسی ڈکیتیاں وغیرہ سڑکوں پر تو کبھی نہیں ہوتی تھیں اور نہ کبھی سنی تھیں جہاں تک لاری اور ٹرک وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ سمجھئے کہ یہاں ایک سیشن جج تھا اسکے پاس ایک کار تھی اور ایک صلاح الدین کے پاس کار تھی میں نے سوال کیا کہ عام لوگ کیسے سفر کرتے تھے؟ انہوں نے بتایا بیل گاڑی میں یہ جو بیل گاڑی ہوتی ہے نا؟ اس پر مال جاتا تھا دو دو تین تین دن کے بعد مثلاً لوہالاہور سے آرہا ہے کوئی فروٹ آرہا ہے کوئی یہاں سے جارہا ہے کوئی آرہا ہے یہ سب بیل گاڑی پر‘ میں نے پوچھا کہ اس وقت جی ٹی روڈ کتنی چوڑی تھی؟ انہوں نے بتایا دس فٹ مگر وہ چھوٹے روڑوں کی بنی ہوئی تھی یہاں تو اس کو دھرمٹ کہتے ہیں اس سے کٹائی ہوتی تھی ہاتھوں سے یہ انجن وغیرہ نہیں ہوتے تھے وہ بھی نے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا کہ سڑک کی مرمت وغیرہ ہوتی رہتی تھی؟ ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہوگی؟جواب ملا بہت اچھی مرمت ہوتی تھی اور ٹوٹ سکتی نہ تھی نالکڑ کے پہئے ہوتے تھے بیل گاڑی کے‘ تو اس سے سڑک کہاں ٹوٹتی ہے گھوڑیوں پر لوگ سواری عام کرتے تھے اس سے کیا سڑک نے ٹوٹنا ہے اب میں نے میر عطا محمد صاحب سے پوچھا کہ سنا ہے کہ لوگ پیدل بھی سفر کرتے تھے؟ وہ تصدیق کرتے ہوئے بولے انتہائی بہت زیادہ پیدل سفر کرتے تھے دس دس پندرہ پندرہ میل تو پیدل سفر کرتے تھے سائیکل پر میرے بھائی کئی دفعہ لاہور سے گوجرانوالہ آئے ہیں ایک دو دفعہ لاہور گیا خود بھی سائیکل پر پینتالیس میل میں نے پوچھا راستے میں کھانے پینے کا سامان پانی وغیرہ یہ سہولتیں مل جاتی تھیں خوش ہوکر بولے یہ اتنی سہولتیں تھیں کہ اگر کسی گاؤں میں چلے گئے ہیں تو وہاں کے آدمیوں نے یہ کہا ہے کہ اپنی روٹی کا انتظام نہ کرنا روٹی ہم دینگے۔ایک اور مقام پرعلی رضا عابدی لاہور کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ لاہور ایسا جیتا جاگتا نگر ہے جو لاکھ اجڑا پھر بھی آباد ہے شام ہوئی ہے تو لوگ گھروں سے باہر آگئے ہیں اور وہ بھی سرشاری کے عالم میں لوگ کھا رہے ہیں‘پی رہے ہیں‘باغوں کو جارہے ہیں‘سواریوں پر بیٹھے ہیں‘مصوری کررہے ہیں‘ساز بجا رہے‘ناٹک ہورہا ہے‘موسیقی کی محفلیں سجی ہیں‘علمی مباحثے ہورہے ہیں اور کتابیں پڑھی جارہی ہیں۔یہی لاہور والے تو ہیں کہ ادھر بارش کا پہلا چھینٹا پڑا اور یہ تانگوں میں لدپھند کرشالاماریا جہانگیر کے مقبرے یا باغ جناح کی طرف چل پڑے‘ ساتھ میں کھانوں سے بھرے برتن ہیں آموں سے بھری پیٹیاں ہیں لوگ گا رہے ہیں کھیل رہے ہیں‘ کھانے پر چھینا جھپٹی کررہے ہیں اور شاخوں پر جھولے ڈال کر جھول رہے ہیں اورلطف یہ کہ پوری بارش کا انتظار بھی نہیں کیا ایک ذراً سا چھینٹا پڑا اور آدھا لاہور گھروں سے باہر نکل کھڑا ہوا‘کھانے پینے کا تو یہ حال ہے کہ میں رکشہ پر بیٹھ کر کہیں جارہا تھا معلوم ہوا کہ آگے مجمع کی وجہ سے سڑک بند ہے پوچھنے پر پتہ چلا کہ کڑھاؤ سے گرم جلیبیاں نکل رہی ہیں یا کھولتے ہوئے سموسے اتررہے ہیں اور سامنے کھڑا ہوا مجمع کھانے میں منہمک ہے میرے ایک دوست مجھے اندر کہیں گلیوں کے ایک تنگ چائے خانے میں لے گئے وہاں بھی بڑا مجمع تھا معلوم ہوا کہ یہاں بہترین کشمیری چائے ملتی ہے‘باغوں میں جانے کی جیسی روایت لاہور میں ہے اور کہیں نہیں حسن اتفاق سے ادھر اس علاقے کو کچھ ایسے حکام مل گئے جنہوں نے شہر میں بڑے بڑے باغ لگادیئے ماڈل ٹاؤن کے درمیان جو بہت بڑی زمین خالی پڑی تھی اس میں دائرہ نما پارک بن گیا ہے ملک میں گھوڑدوڑ بند ہوگئی تو لاہور والوں نے لق ودق ریس کورس گراؤنڈ کو باغ بنا دیا علامہ اقبال ٹاؤن میں گلشن اقبال بن گیا ہے لارنس گارڈن تو پہلے سے تھا مگر اسے باغ جناح کا نام دینے کے بعد صحیح معنوں میں گل وگلزار بنادیاگیا ہے‘ایک بانسری بجانے والا بیٹھا ہے اور ایک مخلوق جمع ہے اور جھوم رہی ہے اور وہ وہ جوبانسری بجا رہا ہے وہ پیسے کے لئے نہیں بس ماحول کو خوشگوار بنانے کیلئے مگر وہ باغ اب نہیں رہا اس کا بہت سا حصہ ختم ہوگیا۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)