کچھ خوش قسمت ملک ہیں‘جہاں لوگ اپنے مسائل اپنے طور پر یا خود ہی حل کر لیتے ہیں جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں‘میری ایک نواسی ہے اس نے ڈرائیونگ لائسنس کیلئے اپلائی کیا وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی لائسنس کیلئے ٹریفک پولیس والوں نے اس کا ٹیسٹ لیا‘لیکن وہ بیچاری فیل ہوگئی وہ بڑی پریشان ہوئی اور مجھ سے آکر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے‘لائسنس نہیں دیتی‘ وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کے لئے اپلائی کیا لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا‘ تو وہ رونے لگی‘شدت سے اور کہنے لگی تم بے ایمان آدمی ہو اور تمہارا ہمارا خاندان کے ساتھ کوئی بیر چلا آرہا ہے اور چونکہ تمہاری ہمارے خاندان کے ساتھ لگتی نہیں ہے اس لئے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے‘ وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ کے خاندان کو نہیں جانتے وہ کہنے لگی‘ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور میں اس ظلم پر احتجاج کروں گی۔اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا‘ایسا میری امی کے ساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کے ساتھ بھی کیا‘جو پرانی گریجویٹ تھیں اور اس طرح ہماری تین ’پیڑھیوں‘(نسلوں)کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آرہا ہے جس سے آپ کا ہمارے ساتھ بیرواضح ہوتاہے‘وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لئے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کے ساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں‘اس لئے ہمیں لائسنس نہیں دیتے‘اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے۔بندے کی یہ خامی ہے کہ میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا۔(اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے اقتباس)