مشہور مصنف رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں کے حوالے سے مرتب کردہ کتاب میں رقم طراز ہیں کہ ایک روز چندریگر صاحب کی طبیعت ناساز تھی‘ انہوں نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں ان کے دفتر میں پڑی ہوئی سب فائلیں لے کر ان کے گھر آ جاؤں‘ چندریگر صاحب باہر لان میں بیٹھے ہوئے تھے‘ ان کے پاس سردار عبدالرب نشتر بھی تشریف فرما تھے ”آپ سٹاف کار میں کیوں نہیں آئے“ چندریگرصاحب نے پوچھا۔سٹاف کارفارغ نہ تھی‘ میں نے جواب دیا‘ چندریگرصاحب نے یکے بعد دیگرے دو تین افسروں کے نام لئے اور بولے“ ہاں ان میں سے کسی کے بچوں کو کلفٹن کی سیر کرانے گئی ہو گی۔ کسی وجہ سے چندریگرصاحب مجھے مسٹرسوہاب کہا کرتے تھے۔ انہوں نے نشتر صاحب سے میرا تعارف یوں کرایا”یہ میرے انڈرسیکرٹری مسٹر سوہاب ہیں۔”سحاب آپ کا تخلص ہے؟ نشتر صاحب نے دلچسپی کے انداز میں پوچھا‘ میں نے انہیں اپنا پورانام بتایا‘ تو نشتر صاحب پیشانی سکیڑ کر کچھ سوچ میں پڑ گئے اور بولے کیا ہم پہلے کبھی مل چکے ہیں؟ مجھے اس نام سے کسی قدر شناسائی کی بو آتی ہے۔“میں نے عرض کیا کہ اس سے پہلے مجھے ان کی نیاز مندی کا شرف حاصل نہیں ہوا‘چندریگرصاحب کی ہدایت کے مطابق میں نے کامرس‘ ورکس اور انڈسٹریز ڈویژنوں کی فائلیں چھانٹ چھانٹ کر الگ کرکے رکھ دیں تو نشتر صاحب بھی فارغ ہو کر چلنے کو تیار تھے‘انہوں نے از راہ نوازش مجھے اپنی کار میں لفٹ دینے کی پیشکش کی‘راستے میں ایک مقام پر کچھ ہندوخاندان آٹھ دس اونٹ گاڑیوں پر اپنا سامان لادے بندرگاہ کی طرف جا رہے تھے نشتر صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا‘ یہ لوگ کتنے آرام سے اپنا تنکا تنکا سمیٹ کر یہاں سے لے جا رہے ہیں‘نشتر صاحب کی تفنن طبع کے لئے میں نے انہیں اپنے ہندو لینڈلارڈ کے کچھ لطیفے سنائے تو وہ حیرت سے بولے آپ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں؟لینڈ لارڈ کیا کرایہ وصول کرتا ہے‘تقریباً آدھی تنخواہ‘ میں نے بتایا‘ سرکاری مکان کیوں نہیں ملا؟ انہوں نے پوچھا میں نے محکمے کی مجبوریاں اور معذوریاں بیان کیں تو وہ خاموش ہو گئے‘دو تین روز کے بعد نشتر صاحب کا پی اے میرے دفتر میں آیا اور لارنس روڈ پر نوشیروان جی مہتہ بلاک کے ایک فلیٹ کا الاٹمنٹ آرڈر میرے حوالے کر گیا مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ فلیٹ انہوں نے میرے لئے کس طرح حاصل کیا۔