برسوں کا گند

میرے پاس ایک بڑا اچھا کلاک تھا پرانی وضع کا میرے اباجی کا تھا‘انہوں نے بڑے شوق سے اپنے بچپن میں اپنے باپ سے کہہ کر یا اپنے داداسے کہہ کر لیا تھا آبنوس کی لکڑی تھی اور لمبی لٹکن جو تھی پنڈولم اور ہند سے جو تھے وہ رومن ہند سے تھے جیسے ریلوے سٹیشنوں پر گھڑیوں میں ہوتے ہیں بالکل کالی سیاہ سوئی اور لگا ہوا وہ گھر میں بڑا اچھا اور خوب صورت دکھائی دیتا اور اس کا ارتعاش جب وہ گھڑیال بجاتا تو دور دور تک اس کی آواز جاتی‘اچانک اچھا بھلا چلتا چلاتا وہ کلاک ایک دن رک گیا تو مجھے بڑی تشویش ہوئی میں نے اس کو کھول کے اس کا جو پنڈولم تھا اسکو ہلایا تو وہ چلا تو سات بجے میں نے ہلایا سو آٹھ تک چلا پر بند ہو گیا اکثر آپ کو تجربہ ہوا ہوگا پھر مجھے کسی سیانے نے بتایا کہ اس کی اندر کی سوئیاں گھمائیں تو پھر یہ ٹھیک ہوگا تو میں نے پنڈولم کو بھی چلا دیا سوئیوں کو بھی چھیڑا وہ بھی چلا تو بجائے ایک گھنٹہ کے چلنے وہ دو گھنٹے چل گیا اب سوئیوں کی حرکت سے فرق پڑا لیکن پھر بند ہو گیا تو میں نے اس کو اتار کے بڑی احتیاط کیساتھ مزید کوشش بھی کی یا اللہ یہ کیسے ٹھیک ہوگا اس کو پھر میں لے گیا ایک بہت بڑے گھڑی ساز کے پاس جو مال روڈ پر ہے ان کو جا کر میں نے دکھایا انہوں نے دیکھا اور کہا اشفاق صاحب یہ بہت پیچیدہ کلاک ہے اور یہ پرانے زمانے کا ہے اور اس کی مشینری جو ہے یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے میں اسے ٹھیک نہیں کر سکتا‘میں جب بہت مایوس ہوا اور اس نے میرا اداس چہرہ دیکھا تو اس نے کہا آپ اسے چھوڑ جائیں میں اسے دیکھوں گا شاید اس میں کوئی ایسی صلاحیت ہو کہ خود ہی مجھے بتا دے اپنی طرف سے ورنہ میرے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے نہ میرے استاد نے مجھے پڑھایا ہے میں اسے چھوڑ آیا دوسرے دن میں شام کو گیا تو اس کی دیوار کیساتھ لگا ہوا تھا اور کھٹا کھٹ چل رہا تھا اتنی خوشی ہوئی مجھے تو میں نے کہا‘ٹھیک ہو گیا؟ کہنے لگا ہاں جی میں نے کہا اب تو نہیں رکے گا؟ کہنے لگا نہیں جی میں نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے تھے پیچیدہ ہے ہاں جی پیچیدہ بدستور ہے تو میں نے کہا بڑی مہربانی بتائیے اس کی کیا اجرت‘ کتنے پیسے ہوئے؟ کہنے لگا کوئی پیسا نہیں میں نے کہا‘ کیوں‘ کہنے لگا،دیکھئے میں نے کچھ کیا ہی نہیں میں نے کھول کے دیکھا تو اس کی گراریوں میں ’پھوس‘، ’کھدڑ‘ جھاڑو دینے سے جو اڑتا ہے پچیس سالوں کا وہ گرد و غبار وہ سارے پھنسے ہوئے تھے وہ میں نے صاف کر دیا اور کچھ نہیں کیا۔یہ عجیب انسانی فطرت ہے کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کردی تو وہ پوری ہو۔ سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہئے یہی ہے نا ٗکبھی آپ آئس کریم جمائیں ٗ آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہوگی نا۔ اب تو بجلی والی آگئی ہے ٗ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں تو خدا کے واسطے اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔ آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے ٗاس میں سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔میری اور میری آپ کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے اب اس کے تیئس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا ٗہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کرکے دیکھتے تھے ٗآیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں ٗتو خاک اس میں سے چوزا نکلنا تھا بار بار اٹھاکے دیکھتے تھے اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے آخر میں ہماری والدہ نے کہا خدا کے واسطے یہ نہ کیا کرو۔دیکھئے آپ نے جب ایک چھٹی لیٹر بکس میں ڈال دی تو پھر اس کے پاس جا کر کھڑے نہ ہوں کہ کب نکلتی ہے ٗڈاکیا اسے کہاں لے جاتا ہے ٗاس کے ساتھ کیا ہوتا ہے ٗاگر آپ اس خط کے ساتھ ساتھ چلنے لگے تو پھر وہ ساہیوال کبھی بھی نہیں پہنچ سکے گی۔آپ بار بار پوچھیں ٗ بھئی یہ کدھر لے جا رہا ہے کس گاڑی میں چڑھا دیا ہے میں تو یہ چاہتا تھا کہ تیز والی پر جائے جب آپ کی خواہشیں ہوتی ہیں اس میں رخنے اس لئے پیدا ہوتے ہیں مثلاً بچیوں کی شادیاں ایک بڑا مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے اس میں والدین کو بڑی تکلیف ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ جلدی ہو۔یہ میں آپ کو جیسے کہ پچھلی باتیں بتا رہا تھا اور آئس کریم کی مثال دے رہا تھا ہمارے گھر میں بچے اس وقت بڑے ہو چکے تھے میں تو فرسٹ ائیر میں تھا ہمارے گھر میں ایک کیمرہ آیا اس زمانے میں کیمرہ آنا بڑی کمال کی بات تھی باکس کیمرے بہت کم ہوتے تھے باکس کیمرہ آیا ہمارے قصبے میں آیا لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرہ آیا ہے انہوں نے کہا جی کہ تصویر کھینچنی ہے ٗذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔بڑے بھائی بی اے میں پڑھتے تھے ان کو اباجی نے باکس کیمرہ لادیا اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سی Negative کھینچنے کے لئے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی ٗ تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہوگئے ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ابھی نہیں۔ہم نے کہا ٗ اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرہ تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اس وقت نہیں آتی ہے تصویر لیکن آتی ضرور ہے لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی ٹریننگ نہیں تھی ہم چاہتے تھے ابھی ہوا ہے تو ابھی اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آئے ٗاور ہم کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)