یہ 1889 ء کی بات ہے جب ملکہ کا راج تھا‘ اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر لوگ اُبلا ہوا پانی پیتے تھے‘ مشہور لکھاری قدرت اللہ شہاب پرانے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید راقم طرز ہیں کہ پھلوں کو لال دوائی میں بھگو کر کھاتے تھے‘ جون جولائی میں لو کے اثرات سے بچنے کیلئے دوپہر کے وقت گرم فلالین کی قمیض پہنتے تھے اور مچھروں سے حفاظت کیلئے سرشام لمبے دستانے اور فل بوٹ چڑھا لینے کا فیشن عام تھا۔ میم صاحبہ سال کا آدھا حصہ پہاڑ پر اور آدھا ولایت میں بسر کرتی تھیں۔ باوا لوگ ولایت میں پیدا ہوتے تھے اور پولیس لائن میں رائیڈنگ سیکھنے کیلئے کبھی کبھی گرمیوں کی چھٹیاں ڈیڈی اباّ کے پاس گزارنے آیا کرتے تھے۔ڈپٹی کمشنر اور دیگر ’بڑے صاحب‘لوگوں کے گھروں میں عام طورپر نوکروں کا ایک پورا لشکر ہوا کرتا تھا‘ ان نوکروں میں حقہّ بردار کا ایک خاص منصب تھا‘ ان دنوں ابھی سگریٹ اور سگار عام نہیں ہوئے تھے‘ البتہ پائپ پئے جاتے تھے‘ یہ رواج تقریباً بیسویں صدی کے شروع تک خاصا عام تھا‘ انگریز افسروں کے گھروں میں بڑے بانکے اور سجیلے حقےّ رہا کرتے تھے‘ حقہّ میں پانی بھی عرق گلاب ملا کر استعمال ہوتا تھا اور جب صاحب بہادر کاؤچ پر لیٹ کر حقہّ پیتے تھے تو ایک خادم نلکی تھام کے کھڑا ہوتا تھا اور حقہّ بردار ایک تانبے کی پُھکنی سے برابر چلم پر پھونکیں مارا کرتا تھا۔ بڑی بڑی دعوتوں میں ہر افسر کے ساتھ اس کا حقہّ بردار بھی آیا کرتا تھا۔ کھانے کے بعد حقہّ برداروں کا جلوس حقّے اٹھائے کمرے میں داخل ہوتا تھا۔ ہر حقہّ بردار اپنے آقا کے پاس حقہّ جما کے دست بستہ کھڑا ہوجاتا تھا۔ حقّوں کی نشست بڑے رکھ رکھاؤ اور سلیقے سے جمتی تھی اور کسی دوسرے کے حقےّ کی نلکی کے اوپر سے گزرنا انتہائی بے ادبی اور گستاخی سمجھا جاتا تھا۔ حقےّ کی لت میموں میں بھی عام تھی‘ وہ حقّوں کی لانبی لانبی رنگ برنگی لچک دار نلکیوں کو اپنی کمر کے گرد سانپوں کی طرح لپیٹ کر بڑے ٹاٹھ باٹھ سے بیٹھ کر حقہّ نوش فرمایا کرتی تھیں۔ تمباکو میں الائچی کا ست‘ زعفران اور سونے کے ورق ملائے جاتے تھے اور ولایت میں ان میموں کی مائیں اور چچیاں بڑے فخر اور استعجاب سے اپنے ہمسایوں کو بتایا کرتی تھیں کہ ہندوستان میں ہماری صاحبزادیاں سونا پھانکتی ہیں اور سانپوں سے کھیلتی ہیں‘ اگرڈپٹی کمشنر کی بیوی کسی کی عزت افزائی کرنا چاہتی تھی تو وہ اسے اپنے حقےّ سے دوچار کش لگانے دیتی تھی ایک اور مقام پر قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہمیں نے اپنے ضلع کا چارج تو بعد میں سنبھالا سب سے پہلے دفتر کے ناظر نے بہ نفس نفیس خود میرا چارج لے لیا۔ ناظر صاحب سے پہلے ملاقات کچھ غیر رسمی طور پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ انہوں نے میرے سامان کا جائزہ لیا میرے ساتھ محض ایک سوٹ کیس اور ایک بستر بند کو دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہو گئے۔ ضابطہ کی رو سے ڈپٹی کمشنر کی آمد سے پہلے ان کے بیرے او ر خانساماں کو آنا چاہئے اس کے بعد ان کے سامان کی ویگن اور موٹر کار آنی چاہئے پھر صاحب بہادر خود تشریف لائیں اور ان کے جلو میں اگر چند کتے اورکچھ گھوڑے بھی ہوں تو عین شایان شان ہے۔ناظر صاحب کی معیت میں ایک کار‘ دو بڑے ٹرک اور کوئی درجن بھروردی پوش لوگ تھے۔ کار انہوں نے شہر کے ایک رئیس سے طلب کی ہوئی تھی ٹرک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی نے پیش کئے تھے اور وردی پوش لوگ دفتروں کے چپڑاسی اور چوکیدار تھے سامان کی طرف سے مایوس ہو کر ناظر صاحب نے مجھے ہر دیگر کار لائقہ سے یاد فرمانے کی ہدایت کی‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اگر مجھے کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ ناظر صاحب کو رخصت کرکے میں ڈاک بنگلہ کے بیرے سے کچھ گرم پانی کی فرمائش کی۔ گرم پانی کا نام سن کریکایک دروازے کا پردہ ہلا‘ اور اس کے عقب سے ناظر صاحب نمودار ہوئے۔ حضور گرم پانی غسل خانہ میں تیار ہے۔ انہوں نے اعلان کیا۔منہ ہاتھ دھوکر میں نے ڈاک بنگلہ کے بیرے سے چاہئے مانگی۔ اس فرمائش پر ایک بار پھر ناظر صاحب نے کہا کہ حضور ڈائننگ روم میں چائے تیار ہے۔ ڈائننگ روم میں چائے کم تھی اور مرغ زیادہ تھے۔ ایک قاب میں مرغ مسلم تھا۔ دوسری میں مرغ روسٹ تھا ایک پلیٹ میں چکن سینڈ وچ تھے کچھ طشتریاں مٹھائیوں سے بھری رکھی تھیں۔ دائیں بائیں پیسٹری کے ڈبے تھے اور ان سب کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر کچھ چائے بھی موجود تھی۔ چائے کا سیٹ چمکدار سلور کا بنا ہوا تھا اور چائے دانی پر مالک کا نام اور پتہ نقش کیا ہوا تھا۔ایک دو بار میں نے کوشش کی کہ خانساماں کو بلا کے اسے اپنے کھانے کے متعلق کچھ ہدایات دے دوں‘ لیکن ہر بار میں اردلی نے مجھے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ حضور کا سارا بندوبست ناظر بابو کی تحویل میں ہے۔(قدرت اللہ کی کتاب شہاب نامہ سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات