سٹریس

ہم بڑی دیر سے ایک عجیب طرح کے عذاب میں مبتلا ہیں ہمیں بار بار اس بات کا سندیسہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں نشے کی عادت بہت بڑھ گئی ہے اور ڈاکٹر ووالدین دونوں ہی بڑے فکر مند ہیں اور والدین دانشور لوگوں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ اس کے قلع قمع کے لئے کچھ کام کیا جائے‘ میں نے بھی ایک سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مطالعہ کیا‘اس تحقیق کے دوران جو میں نے ایک عجیب چیز نوٹ کی وہ یہ کہ ایک اور قسم کا نشہ بھی ہے اور آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں کہ میں اسے نشہ کہوں کیونکہ وہ ہماری زندگیوں پر بہت شدت کے ساتھ اثر انداز ہے وہ نشہ سٹریس کا ہے اس نشے کو ہم نے وطیرہ بنا لیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم سٹریس نہیں لیں گے اس وقت تک ہم نارمل زندگی بسر نہیں کر سکتے آپ محسوس کریں گے کہ اس نشے کو ترک کرنے کی اس نشے سے بھی زیادہ ضرورت ہے میں ایک بار کچہری گیا‘ ایک چھوٹا سا کام تھا اورمجھے باقاعدگی سے دو تین دن وہاں جانا پڑا۔ کئی سیڑھیاں چڑھ اور اتر کر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ بہت سے میری عمر سے بھی زیادہ عمر کے بابے کچہری میں بنچوں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور مقدمے لڑ رہے ہیں‘میں نے اپنی عادت کے مطابق ان سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے ہیں کہنے لگے جی ہمارا مقدمہ چل رہا ہے‘ میں نے کہا کب سے چل رہا ہے ایک بابے نے کہا کہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے سے چل رہا ہے اور ابھی تک چلا جا رہا ہے‘ میں نے کہا کہ مقدمہ کس چیز کا ہے اس نے بتایا کہ ہماری نوکنال زمین تھی اس پر کسی نے قبضہ کر لیا ہے میں نے کہا آپ دفع کریں‘ چھوڑیں اس قصے کو وہ کہنے لگا کہ جی اللہ کے فضل سے بچوں کا کام بڑا اچھا ہے اور میں اس کو دفع بھی کر دوں لیکن اگر مقدمہ ختم ہو جائے تو میں پھر کیا کروں گا۔ مجھے بھی تو ایک نشہ چاہئے صبح اٹھتا ہوں کاغذ لے کر وکیل صاحب کے پاس آتا ہوں اور پھر بات آگے چلتی رہتی ہے اور شام کو میں گھر چلا جاتا ہوں۔میرے ایک دوست ہیں انہیں آدھے سر کے درد کی شکایت ہے اور وہ ایسا طے شدہ درد ہے کہ ہفتے میں ایک مرتبہ بدھ کے دن شام کو تین بجے کے بعد ضرور ہوتا ہے اور اس درد کا حملہ بڑا شدید ہوتا ہے لہٰذا وہ صاحب دو بجے ایک چھوٹے سے سٹول پر اپنی دوائیاں اور ایک بڑے سٹول پر اپنے رسالے اور کتابیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کتابوں کو پڑھتے ہوئے اس درد کے حملے کا انتظار کرتے رہتے ہیں‘اسوقت اس کی بیوی آرام کرتی ہے اور اسے پتہ ہوتا ہے کہ اب اسے اٹیک ہوگا اور یہ جانیں اور اس کا کام۔ وہ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور ساڑھے تین بجے ٹھاہ کرکے انہیں اٹیک ہوتا ہے جب وہ اٹیک ہوتا تو وہ سخت تکلیف میں کانپتے ہیں پھر وہ ایک دوائی کھاتے پھر دوسری اور شام کے چھ بجے تک نڈھال ہو کے بستر پر لیٹ جاتے اور پھر صبح جاکے وہ بالکل ٹھیک ہوتے۔ ایک روز جب میں اور ممتاز مفتی ان سے ملنے گئے تو وہ اپنی دوائیاں رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے۔ کہنے لگے یہ میری دوائیاں ہیں اور اب میرے اوپر اٹیک ہونے والا ہے اور میں ان دوائیوں سے اس کا سدباب کروں گا‘ ان دنوں مفتی صاحب کو ہومیوپیتھی کا شوق تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہومیوپیتھک طریقہئ علاج میں ایک ایسی دوائی ہوتی ہے جو اس مرض کے لئے ہوتی ہے۔ ان صاحب نے کہا کہ نہیں میرے پاس یہ دوائیاں پڑی ہیں لیکن مفتی صاحب اپنے سکوٹر پر گئے اور جاکے دوائی لے آئے۔ اور انہوں نے گول گول میٹھی سی گولیاں ان کے منہ میں ڈال دیں۔ اب اللہ کی مہربانی اور اتفاق دیکھئے کہ پہلے ساڑھے تین بجے‘ پھر چار بج گئے اور پانچ بجے ان صاحب نے زور سے چیخ ماری اور پریشان ہوکر کہنے لگے کہ میری بیماری کہاں گئی۔ (اب وہ صاحب تو اس بیماری کے عادی ہوچکے تھے۔) وہ کہنے لگے کہ میرے ساتھ یہ دھوکا ہوا ہے اگلے دن وہ سی ایم ایچ گئے اور اس دوائی کود کھایا۔ ہسپتال والوں نے اس دوائی کا ٹیسٹ کیا اور کہا کہ یہ کوئی دوائی نہیں ہے یہ تو میٹھا ہے۔ انہوں نے آکے مفتی صاحب سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ وہ کیا تھا۔ خواتین و حضرات وہ بیماری ہی ان کی محبوبہ ہوگئی تھی۔ اتنی پیاری کے نہ انہیں بیوی اچھی لگتی تھی نہ انہیں بچے اچھے لگتے تھے۔(اشفاق احمد کے ریڈیو پروگرام سے اقتباس)