تعلق ضروری ہے

 ایک زمانے میں بہاولپور کے ایک گنے کے کھیت میں ایک گنے کے ٹانڈے پر سور ج کی چمکدار‘سنہری روشنی پڑتی ہے اور وہ صبح سویرے پڑرہی ہوتی ہے سات منٹ کے بعد وہ گنے کا ٹانڈا اس روشنی سے نکل جاتا ہے پھر وہ روشنی دوسرے ٹانڈوں پر یا کھیت پر پڑتی جائے گی ج باس ٹانڈے پر وہ روشنی پڑچکی تو وہ ٹانڈا کٹا اور کٹ کے شوگر فیکٹری میں گیا وہاں وہ کرش ہونے کے بعد چینی میں تبدیل ہوا پھر اس کی بوری بھری گئی اب وہ بوری کس طرح  سے سفرکرتی ہوئی ہمارے ہاں لاہور پہنچی پھر دکاندار سے ہمارے ریستوران یا ٹی ہاؤس کے بندے نے کلو دوکلو چینی خریدی ادیب آرٹسٹ لوگ وہاں بیٹھے تھے میں نے وہاں سراج سے کہا (جوٹی ہاؤس میں بڑا ہی پیارا بیرا ہے) کہ چائے کی سٹرانگ سی پیالی لاؤ اب اس نے ایک کی بجائے دو بلکہ سوا دوچینی کے چمچ اس چائے میں ڈالے اور وہ چائے مجھے دی میں وہ چائے پی کر وہاں سے باہر نکلا اور اپنی سائیکل اٹھائی (یہ میں اپنے کالج کے زمانے کی با ت کررہا ہوں)میری وہ سپورٹس سائیکل تھی چلنے سے پہلے میں نے اس کی ڈائنمو کو اس کے ٹائر کیساتھ لگایا میں نے اس چینی سے اپنے اندر پیڈل پاور پیدا کی اور پیڈل چلانا شروع کیا پھر میری سائیکل کے ٹائر سے لگی ڈائنمو سے بجلی پیدا ہوکر میرے سائیکل کی بتی میں آئی تو ساری سڑک میرے سامنے روشن ہوگئی خواتین وحضرات‘یہ وہی روشنی تھی جو سورج نے گنے کو عطا کی تھی یہ رشتے میں بندھی ہوئی کس طرح سے میرے پاس آئی اور اب میں اس روشنی کو پہچانتا تھا اور میں چلا جارہا تھا ہم رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں او ر انہیں توڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کسی نہ کسی طرح سے کسی نہ کسی روپ میں ہم کو باہم ہونا پڑے گا آپ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر اس پر ضرور غور کیجئے گا اور لاشعور کی دنیا میں جاکر غور کیجئے گا تو یقینا آپ کسی مثبت نتیجے پر پہنچ پائیں گے۔ ایک بس ہمارے گاؤں آیا کرتی تھی ہم اس بس کو لاری کہتے تھے لاری کو آپ پرانے زمانے کی شور مچاتی ہوئی بس کہہ سکتے ہیں اس لاری کے ڈرائیور کو یہ خاص حکم تھا کہ اس کی سپیڈ تیز نہیں کرنی اگر پچیس میل فی گھنٹہ  سے اس کی رفتار تیز ہوجاتی تو چالان کردیا جاتا تھا اور سرکاری ملیشیاء اس ڈرائیورکو خارج کردیتی تھی اس طرح وہ پرانی سی لاری مسافروں سے لدی پھدی روتی پٹتی‘گھڑ گھڑ کرتی آتی تھی صبح دس بجے کے قریب گیڈر بار‘ ڈاڈا کالونی سے چلتی تھی کیونکہ وہاں ایک بڑا کارخانہ تھا اور وہاں سے ایک ڈاکیا ڈاک کا تھیلالے کر ہمارے گاؤں اس لاری سے آیا کرتا تھا وہ لاری مسافر اتار کر ہمارے گاؤں سے آگے چلی جاتی تھی اور پھر وہ شام کو لوٹتی تھی تو ہمارا اڈا کیا یا ہر کارہ اس میں بیٹھ کر واپس چلا جاتا تھا۔جب ہمارے گاؤں وہ ڈاکیا ڈاک لے کر آتا تو اس کے کندھے پر ایک تو تھیلا لٹکا ہوا ہوتا تھا خاکی وردی اس نے پہنی ہوتی اور ایک چمڑے کا بیلٹ اس نے سینے سے کمر کی طرف باندھا ہوتا تھا۔وہ سلطان چٹھی رسان کو دیکھ کر نظم پڑھتا اور سلطان اسے سلام کرتا ہوا اس کی دکان میں آجاتا اس دکان کے سامنے ایک سبزی فروش کا چبوترہ تھا اس چبوترے پر سلطان چٹھی رساں اپنا وہ خوبصورت سا تھیلا رکھتا اس میں سے خطوط کے دو بڑے بڑے پیکٹ نکالتا اور انہیں رسی سے الگ الگ باندھ دیتا جبکہ اپنا ڈاک کا بڑا تھیلا سبزی فروش کے پاس رکھ دیتا خواتین وحضرات! جب وہ ڈاکیا وہاں سے چلنے لگتا تو دوکتے’ڈبو‘ اور کالو‘ اس کے پاس آجاتے ڈبو کی کمر پر ایک چٹاخ کا نشان تھا جبکہ کالو کالے رنگ کا تھا وہ دونوں آوارہ کتے تھے لیکن انہیں جانے کیسے پتہ چل جاتا کہ سلطان چٹھی رساں لاری سے اتر چکا ہے اور وہ وہاں پہنچ جاتے ڈبو ڈاکیے کے دائیں جانب جبکہ کالو اس کے بائیں آکر بیٹھ جاتا۔وہ ڈاکیا ان دو پیکٹوں میں سے ایک ڈبو کے منہ میں دے دیتا تو دوسرا پیکٹ کالو کو دے دیتا وہ اپنے پیکٹ اٹھائے چل پڑتے جبکہ سلطان چٹھی رساں ان دونوں کے درمیان میں چلتا دائیں ہاتھ کی جتنی بھی آبادی تھی اس کی چٹھیاں پہلے تقسیم ہوتیں اور ہر گھر پرکھڑے ہوکر ڈاکیا کالو کے منہ سے پیکٹ لیتااور پھر اسے باندھ کر کالو کو دے دیتا جب آخر تک پہنچ جاتے پھر واپسی پر ڈبو کے پیکٹ کی باری ہوتی اور ڈبو بھی احسن اندازمیں اپنی ڈیوٹی دیتا۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)