ٹی وی آمد سے رخصتی تک

ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری اختیار کرنا ایک بڑا اور اہم فیصلہ ہوتا ہے ملک میں ٹی وی آنے پر ریڈیو چھوڑنے کا احوال پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر کچھ اس طرح لکھتے ہیں حکومت پاکستان  نے ملک میں ٹیلی ویژن کے قیام کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وزارت اطلاعات ونشریات میں ایک ٹی وی پلاننگ سیل قائم کیاگیا تھا جو چار افسران پر مشتمل تھا ان میں ٹی وی کے تربیت یافتہ افراد تھے اسکے سربراہ حکومت کے ایک سینئر افسر عبدالقیوم تھے میں عجیب شش و پنج میں مبتلاتھا تقریباً سارے گھر والے بھی کنفیوز تھے ہر وقت گھر میں بحث مباحثہ کا بازار گرم رہتا تھا  مجھ پر اتنا پریشر تھا کہ میرے لئے کچھ سوچنا ممکن ہی نہ تھاالبتہ جب رات ہوتی تو میری بیوی صفیہ چپکے چپکے‘سرگوشیوں میں مجھے سمجھانے کی کوشش کرتی کہ میرے لئے ایسا جذباتی فیصلہ مان لینا مناسب نہیں ہے میں عجیب کش مکش میں تھا بیمار باپ‘ناراض ماں اور مجبور بیوی میں بڑا اداس اور بے چین رہنے لگا صرف میری چھوٹی سی بچی تھی جس سے میں دل بہلاتا تھا جسکا نام میری ماں نے ہما رکھا تھا میں سارا وقت اسی سے کھیلتا رہتا پھر یوں ہوا کہ ایک شام مجھے ابا جی نے اپنے پاس بلایا اس شام انہوں نے میرا ہاتھ اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں تھام لیا اور آہستہ آہستہ سرگوشیوں میں کچھ کہنے لگے میں جھک کر کان ان کے قریب لے گیا وہ کہہ رہے تھے تم نے مجھے کچھ بتایا نہیں انگلستان میں تم نے کیا کیا کیسے رہے تم سکاٹ لینڈ سے جو پکچر کارڈ بھیجتے تھے وہ گھر والوں نے مجھے دکھائے تھے میں جانتا ہوں سکاٹ لینڈ برطانیہ کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے وہاں کے رہنے والے خود کو انگریز نہیں سکاٹش کہتے ہیں ابا جی ٹھہر ٹھہر کر آہستہ آہستہ بول رہے تھے وہ ضرور تمہیں دریائے فورلی اور آئی لینڈ آف فائیف کی سیر کو بھی لے گئے ہونگے میں تعجب کرتا رہا کہ اس عمر میں اور ایسی لاغری میں انہیں یہ سب کچھ کس طرح یاد تھاپھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں آج کل گھر میں تمہارے حوالے سے کیا کھچڑی پک رہی ہے تمہاری ماں کسی صورت اس بات کیلئے تیار نہیں کہ تم اس سے دور جاؤ مگر یہ فیصلے جذبات سے نہیں عقل سے کئے جاتے ہیں میں دیکھ رہا ہوں تمہارے سامنے لامحدود ترقی کے مواقع ہیں تمہاری ذہانت اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ تم زندگی میں بہت ترقی کرو گے بہت نام کماؤ گے یہ وقت فیصلہ کا ہے جو موقع اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤ اپنا اپنی بیوی بچوں کا اور اپنے خاندان کا جس میں تمہاری ماں بھی شامل ہے مستقبل سنوارو اباجی نے آنکھیں بند کرلیں وہ تھک گئے تھے اس کے بعد پھر میں نے کبھی ان کی آواز نہیں سنی جب ایک مہینے بعد آخری بار میں نے انہیں دیکھا تو وہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوچکے تھے‘ اباجی کی باتیں سننے کے بعد میں فیصلہ کرلیا انہوں نے مجھے ایک بہت بڑی مشکل سے نجات دلادی تھی اس رات میں نے صفیہ کو سکون کی نیند سوتے دیکھا سوتے میں مسکرارہی تھا شاید آنیوالے خوشگوار دنوں کے خواب دیکھ رہی تھی دو دن بعد بذریعہ تیز گام راولپنڈی روانہ ہوگیا میں ٹیلی ویژن کی نئی دنیا کی طر ف جارہا تھا ریڈیو پیچھے رہ گیا آگے ٹیلی ویژن تھا۔ ایک اور مقام پر ٹی وی سے رخصتی کے حوالے سے آغا ناصر لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور صدارت میں 16 جون 1988ء کا دن میرے لئے ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک اہم دن تھا میں نو بجے دفتر روانہ ہوا میرا ارادہ کہیں جانے کا نہیں تھا مگر راستے میں اپنے دفتر یعنی ٹی وی ہیڈکوارٹر کے بالکل ملحقہ گہما گہمی اور صدر پاکستان کے پروٹوکول کی گاڑیاں دیکھ کر خیال آیا کہ کوئی تقریب ہونیوالی ہے اور پھر میں تقریب میں شرکت کیلئے چل پڑا ہوٹل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا تقریب سے فارغ ہوکر ہم سب جنرل منیجر کے کمرے میں آئے جہاں یہ انتظام کیاگیا تھا پروگراموں کی سکریننگ شروع ہوئی میں صدر  کے بالکل ساتھ بیٹھا تھا اور انکی ہر بات کا جواب اورہر سوال کی وضاحت کررہا تھا وہ ٹرانسمیشن کی ریکارڈنگ دیکھ رہے تھے اور درمیان درمیان میں مختلف اعتراضات بھی کرتے جاتے تھے‘ میں انکی باتیں سنتا رہا اور بڑے ادب سے کہا ’سرآپ جو تنقید کررہے ہیں پی ٹی وی کے چیئرمین یا ایم ڈی کے لیول کی نہیں ہے یہ تو نچلی سطح کے پروگرام کے سٹاف کی بات ہے انہوں نے خفگی سے کہامجھے ایکشن لینا ہے بتائیے کس کی گردن کٹنی چاہئے بعد میں صدیق سالک نے بڑ ی تفصیل سے یہ باتیں بتائیں واپس لوٹا تو دفتر میں میرے لئے سید منیر حسین صاحب کا پیغام تھا کہ بات کروں جب ان سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا’آغا صاحب کچھ ڈویلپمنٹ ہے آپ ابھی دفتر ہی میں رہیں میں پھر فون کرونگا‘ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ان کا فون آیا انہوں نے بتایا کہ مجھے ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی پوسٹ سے ہٹا دیاگیا ہے‘جانے کس بات پر میرا پہلا تاثر ایک بہت بڑے بوجھ سے نجات حاصل ہوجانے کا تھا۔