جہاں تک چھوٹی صنعتوں کا تعلق ہے‘اس زمانے میں پنجاب میں بجلی سے چلنے والی کھڈیوں اور آرٹ سلک کی گرم بازاری تھی جسے دیکھو اسکے سر میں پاور لوم کا پرمٹ حاصل کرنیکا سودا سمایا ہوا تھا اسی دھماچوکڑی میں اگر کوئی سب سے پیچھے تھا تو وہ بیچارا پشتینی نورباف تھا جسکے آباؤاجداد صدیوں سے کھڈیوں کی دستکاری کیساتھ وابستہ چلے آرہے تھے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاتا اور اسکے بعد نئے آنیوالوں کی باری آتی رجسٹرار آف کوآپریٹو سوسائٹیز کیساتھ ملکر ہمارے محکمے نے اس سلسلے میں تھوڑی بہت کوشش بھی کی‘لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی‘پاور لوم کے پرمٹ مانگنے والوں کا زیادہ زور پانچ پانچ پاور لوم حاصل کرنے پر تھا اس کیساتھ انہیں کافی مقدار میں آرٹ سلک یارن کا امپورٹ لائسنس مل جاتا تھا‘ جسے بلیک مارکیٹ کرکے خاطر خواہ منافع کمایا جاسکتا تھا۔میں نے اپنے ضلع کا چارج تو بعد میں سنبھالا سب سے پہلے دفتر کے ناظر نے بہ نفس نفیس خود میرا چارج لے لیا۔ ناظر صاحب سے پہلے ملاقات کچھ غیر رسمی طور پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ انہوں نے میرے سامان کا جائزہ لیا میرے ساتھ محض ایک سوٹ کیس اور ایک بستر بند کو دیکھ کر وہ قدرے مایوس ہو گئے۔ ضابطہ کی رو سے ڈپٹی کمشنر کی آمد سے پہلے ان کے بیرے او ر خانساماں کو آنا چاہئے اس کے بعد ان کے سامان کی ویگن اور موٹر کار آنی چاہئے پھر صاحب بہادر خود تشریف لائیں اور ان کے جلو میں اگر چند کتے اورکچھ گھوڑے بھی ہوں تو عین شایان شان ہے۔ناظر صاحب کی معیت میں ایک کار‘ دو بڑے ٹرک اور کوئی درجن بھروردی پوش لوگ تھے۔ کار انہوں نے شہر کے ایک رئیس سے طلب کی ہوئی تھی ٹرک مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی نے پیش کئے تھے اور وردی پوش لوگ دفتروں کے چپڑاسی اور چوکیدار تھے سامان کی طرف سے مایوس ہو کر ناظر صاحب نے مجھے ہر دیگر کار لائقہ سے یاد فرمانے کی ہدایت کی‘ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ اگر مجھے کوئی ضرورت محسوس ہوئی تو ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ ناظر صاحب کو رخصت کرکے میں ڈاک بنگلہ کے بیرے سے کچھ گرم پانی کی فرمائش کی۔ گرم پانی کا نام سن کریکایک دروازے کا پردہ ہلا‘ اور اس کے عقب سے ناظر صاحب نمودار ہوئے۔ حضور گرم پانی غسل خانہ میں تیار ہے۔ انہوں نے اعلان کیا۔منہ ہاتھ دھوکر میں نے ڈاک بنگلہ کے بیرے سے چاہئے مانگی۔ اس فرمائش پر ایک بار پھر ناظر صاحب نے کہا کہ حضور ڈائننگ روم میں چائے تیار ہے۔ ڈائننگ روم میں چائے کم تھی اور مرغ زیادہ تھے۔ ایک قاب میں مرغ مسلم تھا۔ دوسری میں مرغ روسٹ تھا ایک پلیٹ میں چکن سینڈ وچ تھے کچھ طشتریاں مٹھائیوں سے بھری رکھی تھیں۔ دائیں بائیں پیسٹری کے ڈبے تھے اور ان سب کے درمیان جملہ معترضہ کے طور پر کچھ چائے بھی موجود تھی۔ چائے کا سیٹ چمکدار سلور کا بنا ہوا تھا اور چائے دانی پر مالک کا نام اور پتہ نقش کیا ہوا تھا۔(قدرت اللہ کی کتاب شہاب نامہ سے اقتباس)