عبداللہ بن مبارکؒ اپنے وطن مرو سے کئی سو میل کا سفر کرکے شام گئے اور وہاں سے لوٹے تو مرو پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس کسی کا ایک قلم رہ گیا ہے فوراً یاد آیا کہ یہ تو انہوں نے شام میں ایک شخص سے تھوڑی دیر کیلئے لیا تھا معمولی قلم تھا اس کی کوئی اہمیت نہ تھی لیکن اللہ سے ڈرنے والے عبداللہ بن مبارک کیلئے یہ امانت لوٹانے کا مسئلہ تھا فوراً سامان سفر درست کیا اور دوبارہ شام کے سفر پر نکل کھڑے ہوئے مہینوں راہ چل کر وہاں پہنچے اس شخص کو ڈھونڈا وہ مل گیا تو قلم اس کے حوالے کرکے معذرت کی کہ لوٹانے میں دیر ہوئی غلطی سے یہ ان کے ساتھ مرد چلا گیا تھا‘حج کا زمانہ آتا تو حضرت عبداللہ بن مبارک کے ہاں بڑی گہما گہمی رہتی۔ لوگ ان کے پاس آتے پوچھتے۔۔۔ کب تک نکلنے کا ارادہ ہے؟ وقت اور تاریخ معلوم ہوجاتی تو اللہ کے وہ بندے جو حج کو جانا چاہتے روپیہ پیسہ اور کھانے پینے کی چیزیں لاکر ان کے پاس جمع کرواتے۔ یہ ایک پرچے پر ہر ایک کا حساب لکھ کر رکھ لیتے پھر وہ مبارک دن آتا کہ کئی لوگوں کا قافلہ مرو سے حج بیت اللہ کیلئے نکل کھڑا ہوتا۔ عبداللہ بن مبارک میر کارواں ہوتے سفر سے لوٹے ہی حضرت عبداللہ بن مبارک وہ پرچے نکالتے جن پر زائرین حرم کا حساب لکھا ہوتا پھر ان کے مطابق نقد و جنس ایک ایک چیز لوٹا دیتے تمام کی تمام! یہ لوگ کہتے...ہم نے تو یہ چیزیں آپ کے پاس راستے کے خرچ کے لئے جمع کرائی تھیں۔ ہمیں اپنی ضرورت کی ہر چیز ملتی رہی۔ اب ان کی واپسی کا کیا سوال ہے؟ فرماتے...نہیں تم سب میرے مہمان تھے‘ تمہاری خدمت کرکے مجھے جو خوشی ہوئی اس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ...اگر آپ کو کچھ نہ لینا تھا تو آپ پہلے انکار کردیتے۔ کسی سے کچھ جمع ہی نہ کرواتے‘ بے وجہ حساب کتاب سے آپکا بڑا وقت ضائع ہوتا ہے‘اسکے جواب میں فرماتے... اگر میں ایسا کرنے لگوں تو سفر میں سب کی نظریں جھکی رہیں گی یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ مہمان بن کر چلنے سے انکار کردیں اور حج کا فریضہ ادا کرنے سے محروم ہوجائیں اسلئے کہ یہاں سے قافلہ صرف میرے ہی ساتھ جاتا ہے دوستو! یہ اللہ کی بڑی عنایت ہے کہ اتنے لوگ میرے ساتھ ہوجاتے ہیں اور مجھے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کا ایک موقع مل جاتا ہے۔
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرلیاگیا ان کی سلطنت چھن گئی انگریز گورنر کو حکم ہوا کہ انہیں رنگون بھیج دیا جائے وہاں یہ اپنی باقی ماندہ زندگی گذاریں‘ بہادر شاہ ظفرکی گرفتار ی اور جلا وطنی کا حکم ایک دنیا کیساتھ واجد علی شاہ نے بھی سنا وہ بھی انگریزوں کی چوٹ کھائے ہوئے تھے اودھ کے تخت سے محروم کرکے انہیں کلکتے میں نظر بند کردیاگیا تھا بس ایک ہی طمانیت تھی کہ بہت رقم وظیفے میں ملتی تھی کلکتہ پہنچ کر انہوں نے مٹیا برج آباد کیا‘واجد علی شاہ نے سنا بہادر شاہ ظفر رنگون بھیجے جارہے ہیں کلکتے سے ہوکر جائیں گے تو انگریز حکمرانوں سے کہا کہ کلکتے میں انہیں شاہ ظفر کی دعوت کرنے کی اجازت دی جائے انگریزوں نے اجازت دیدی مگر شہنشاہ ظفر نے دعوت قبول نہ کی البتہ کہلوادیا کہ …… میں تم سے مٹیا برج میں دوگھڑی کو مل لونگا وقت مقررہ پر وائسرائے بھی وہاں پہنچ گیا کہ اس ملاقات کا منظر دیکھے یہ بادشاہ اور صوبہ دار کی ملاقات تھی یہ اور بات ہے کہ بادشاہ کی حالت اس وقت بالکل گئی گذری تھی اور صوبہ دار کے ٹھاٹ باٹ اب بھی بہت کچھ تھے واجد علی شاہ بھاری بھر کم آدمی تھے ہیروں موتیوں سے جگمگ جگمگ کرتاعصاوہ انہوں نے بڑھ کربادشاہ کو پیش کیا‘بہادر شاہ ظفر نے کہا‘وہ دن نہیں وہ زمانہ نہیں رہا لیکن واجد علی شاہ اپنا مقام بھی جانتے تھے اور مغل شہنشاہ کی عظمت بھی پہچانتے تھے منت کرتے رہے کہ قبول فرمالیجئے‘ورنہ میری خاندانی روایات پر پانی پھر جائے گا آخر بادشاہ نے عصالے لیا ’یاد ایام‘ میں عبدالرزاق کا نپوری نے لکھا ہے کہ معزول شہنشاہ کے ہاتھ میں زمرد کی تسبیح تھی وہ انہوں نے ازراہ مہربانی واجد علی شاہ کو عنایت فرمائی واجد علی شاہ نے اسے لے لیا پھر فرط مسرت اور کمال ادب سے بڑھ کر بادشاہ کے ہاتھ چوم لئے ملاقات اس پر ختم ہوئی اور بہادر شاہ لوٹ گئے‘ وائسرائے عقیدت اور عطا کے اس منظر کو سرجھکائے خاموشی سے دیکھتا رہا۔(شاہ بلیغ الدین کے ریڈیو پاکستان سے نشر بیان سے اقتباس)