صدارت ایک مشاعرے کی

 جالندھر کے دوستم ظریفوں کو مذاق سوجھا‘ انہوں نے میرا نام ایک مشاعرے کی صدارت کیلئے تجویز کر دیا۔ ستم یہ کہ مجھے اس حادثے کی اطلاع اس وقت دی جب پانی سر سے گزر چکا تھا‘ یعنی مشاعرے کا اعلان اخبارات میں کر دیاگیا تھا۔ دعوتی رقعے کامضمون جو سیکرٹری‘ مجلس ”دہشت پسند شاعراں“ کی طرف سے تھا۔ حسب ذیل تھا۔مشاعرے کی صدارت فرما کر خاکسارکو ممنون فرمائیں۔امید ہے کہ آپ اس جسارت کے لئے معاف فرمائیں گے۔ نیازمند ”سیکرٹری“ جسارت کا لفظ مجھے ذراکھٹکا اگر اس کی بجائے”خباثت“ ہوتا تو شاید میں سیکرٹری صاحب کو معاف کر دیتا لیکن جسارت! مشاعرے کا اشتہار پڑھا تو بھونچکا رہ گیا۔ تین چار اچھے شاعروں کے علاوہ کوئی بھی ایسا نام نظر نہ آیا جو اس سے پہلے کہیں پڑھایا سنا تھا۔میں مشاعروں اور مجالس کی صدارت سے ذرا نہیں بلکہ کافی گھبراتا ہوں۔ بے تکلف احباب کی محفل اور چیز ہے لیکن کرسی صدارت پر بیٹھ کر کوئی کام کی بات کرنا میرے بس کا روگ نہیں‘اکثر واہی تباہی بکنے لگتا ہوں یا پھر خود کو یا کسی اورکو کوسنا شروع کر دیتا ہوں اس لئے صدارت کی جاں گداز خبر پڑھ کر جواثر میرے اعصاب پر ہوا وہ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ لائبریری میں پہنچا ”آب حیات“ کے علاوہ اور کوئی کتاب نہ ملی سوچا اس سے کام چل جائے گا لیکن جب پندرہ بیس لطائف اور پچاس ساٹھ اشعار نقل کر چکا تویک لخت خیال آیا کہ یہ تو کافی فرسودہ ہیں۔ حاضرین چاہے ان سے محظوظ ہو سکیں لیکن شعرائے کرام کیا کہیں گے۔ اتفاق سے ایک دوست کی وساطت سے ”بانگ درا“ کا پرانا نسخہ مل گیا اسکی ورق گردانی کی‘ اچانک نظر”پہاڑ اورگلہڑی“ پر جاپڑی اطمینان کا سانس لیا کہ کم از کم سیکرٹری صاحب کیلئے توایک شعر مل گیا‘ کوئی پہاڑ پر یہ کہتا تھا اک گلہری سے...تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے...کالج سے ایک دن کی چھٹی لی‘ اور صدارت کی ”کاغذی تیاریاں“شروع کر دیں سب سے مشکل کام جو نظر آیا وہ تمہید کا مسئلہ تھا کافی غورو خوض کے بعد مندرجہ ذیل فقرے لکھے حضرات! مجلس دہشت پسند شاعراں“ کے سیکرٹری نے مجھ نا اہل کو اس مشاعرے کا صدربنا کر جس نا لائقی کا ثبوت دیا ہے اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ انہیں فوراً سیکرٹری کے عہدے سے برطرف کر دیاجائے۔ حضرات! میں شاعر ہوں نہ مسخرا‘ رہا یہ وہم کہ شاید سخن فہم ہوں‘ تو حضرات! میری سخن فہمی کا تویہ عالم ہے کہ اکثر داد دینے کے بعد شاعر سے پوچھتا ہوں کہ اس شعر کا مطلب کیا تھا؟ جس پر میں نے داددی ہے۔(کنہیالال کپور کی کتاب نوک نشتر سے اقتباس)