عالمی معیشت اور عرب ممالک

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے نہ صرف عالمی معیشت پر بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں وہ ممالک جنہیں گذشتہ دس برسوں میں آگ اور خون میں نہلا دیا گیا وہ اب رفتہ رفتہ اس خوفناک تباہی سے واپسی کا سفر شروع کر دیں گے امریکہ کی آئل اینڈ گیس انڈسٹری میں آنیوالی تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں عراق‘  لیبیااور شام جیسے جنگ زدہ ممالک میں خانہ جنگی کی جگہ سیاسی استحکام آنے لگے گا اسکی وجہ یہ نہیں کہ مغربی ممالک نے ان تباہ حال جنگی تھیٹرز میں مزید سرمایہ کاری سے گریز کا فیصلہ کیا ہے یا پھر انہیں مشرق وسطیٰ کے لاکھوں بے گھر لوگوں کے یورپی ممالک کو مراجعت کرنیکا خوف لاحق ہے۔امریکہ کی معاشی پالیسی میں اس جوہری تبدیلی کی وجہ بہر حال خوف ہی ہے مگر اس خوف کا تعلق کسی سیاسی حقیقت سے نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی سے ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے کئی امریکی ریاستوں میں آنیوالے سیلاب‘ طوفان‘  خشک سالی اور جنگلوں میں لگنے والی آگ نے اس تاثر کو جنم دیا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن خود انسان نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔صدر بائیڈن کے انتخابی ایجنڈے کا کلیدی نقطہ ماحولیات کے تحفظ میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری تھا۔نظر یہ آ رہا ہے کہ اس ایجنڈے پر عملدر آمد کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی امریکی میڈیا کے مطابق انہیں ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے کانگرس میں پیش کردہ بل میں کم از کم ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کی کمی کرنا پڑیگی تب کہیں یہ ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام سینیٹروں کے ووٹ حاصل کر سکے گا۔ اس بل کے مخالفین نے ما حولیات سے متعلق تمام منصوبوں کو ختم کر دیا ہے جسکے بعد میڈیا کہہ رہا ہے کہ یہ اب صدر بائیڈن کی قانون سازی کا مسودہ نہیں رہا بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر انکے مخالفین کے ایجنڈے کی دستاویز بن گیا ہے صدر بائیڈن اس مبہم اور کمزور بل کو اسلئے قبول کر لیں گے کہ اگلے سال جب انکی جماعت مڈ ٹرم الیکشن میں ووٹ مانگنے جائیگی تو اسکے امیدواروں کے پاس عوام کو اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے کچھ تو ہو گا۔ ما حولیات کے محاذ پر صدر امریکہ کی اس ناکامی سے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کی معیشت پر کوئلے اور گیس سے چلنے والی صنعتوں کی گرفت کتنی مضبوط ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی صنعت کے بھر پور تعاون کی وجہ سے بر سر اقتدار آئے تھے مگر اس معاملے کی Flip Side یعنی دوسرا رخ یہ ہے کہ کسی بھی امریکی صدرکے پاس اپنی پسند کی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئیوافر سرمایہ موجود ہوتا ہے اسوقت امریکہ میں الیکٹرک کاروں کی صنعت‘  Renewable Energy یعنی دھوپ اور ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرنیکی صنعتوں نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ انہیں ختم کرنا نہایت مشکل ہے انہیں بائیڈن انتظامیہ کی حوصلہ افزائی آگے بڑھنے میں خاصی مدد دے سکتی ہے امریکی عوام بھی انرجی پیدا کرنے کے پرانے ذرائع کو ختم کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہیں یہاں کی نوجوان نسل کئی سالوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ انہیں تباہ شدہ ماحول ورثے میں نہ دیا جائے صدر بائیڈن نے ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے بل میں کٹوتی کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوے کہا ہے کہ وہ  Wind and Solar Energy کی صنعتوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ماحول کو بہتر بنانے کی اس منصوبہ بندی کا آغاز صدر اوباما نے کیا تھا انکے شروع کردہ تمام منصوبوں کو صدر ٹرمپ نے ختم کرنیکی کوشش کی تھی مگران دنوں جو صنعتکار نئے پروجیکٹس شروع کر چکے تھے وہ ان میں سرمایہ کاری کرتے رہے اب بائیدن انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کیوجہ سے انہوں نے اپنے منصوبوں کو مہمیز لگا دی ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے وافر مقدار میں تیل نکالنے والی بڑی امریکی کمپنیوں نے چند روز پہلے اعلان کیا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کمی کرکے انرجی پیدا کرنے کے نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں گی  ان کمپنیوں میں  Exxon Mobil, Royal Dutch Shell, BP اور Chevron شامل ہیں اب یہ سوال زیر بحث ہے کہ تیل کی پیداوار میں اتنی بڑی کمی کو کیسے پورا کیا جائیگا دنیا کو بہر حال اسکی ضروریات کے مطابق تیل تو مہیا کرنا پڑیگاتیل کی وہ مقدار جو کل تک امریکی کمپنیاں مہیاکیا کرتی تھیں اب اسے مشرق وسطیٰ‘ شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالکپوراکریں گے تو کیا OPEC یعنی Organization of Petroleum Exporting Countriesکا زمانہ لوٹ آئیگا نظر ایسا ہی آ رہا ہے امریکہ اگر ایک عشرے تک آئل اینڈ گیس پروڈکشن کرنے کے بعد اس کاروبارسے خاصی حد تک ہاتھ کھینچ  لیگا اور قدرتی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں بھی کمی کر دیگا تو پھر اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے اوپیک پر ہی انحصار کرنا پڑیگا اسکا ایک نتیجہ یہ ہو گا کہ اوپیک ممالک کے مطلق لاعنان حکمرانوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا وہ تیل اور گیس کی پیداوار میں سرعت سے اضافہ کریں گے صدر بائیڈن نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ امریکہ کو اب بیرونی ممالک کے تیل پر انحصار کرنا ہو گا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ جب تک انرجی پیدا کرنے کے نئے ذرائع کو اتنی ترقی نہیں دے دیتا کہ اسے پرانے ذرائع سے نجات مل جائے اس وقت تک وہ اوپیک ممالک سے اپنی انرجی کی ضروریات پوری کریگا امریکی میڈیا کے مطابقBiden administration has been calling on OPEC and its allies to boost production to help bring down rising oil and gasoline prices یعنی بائیڈن انتظامیہ اوپیک ممالک سے کہہ رہی ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں تا کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کیا جا سکے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکی حکومت وفاقی زمینوں اور آبی ذرائع سے تیل اور گیس پیدا کرنے میں کمی کر رہی ہے اس حکمت عملی کے ناقدین کہہ رہے ہیں کہ صدر بائیڈن اپنے ملک کو  Fossil Fuel یعنی قدرتی ایندھن جیسے پتھر کا کوئلہ اور گیس پیدا کرنے کے قدیمی ذرائع سے دور لیجا رہے ہیں مگر دنیا کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے انہی پرانے ذرائع پر انحصار کرنے پرآمادہ کر رہے ہیں اسکا جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ امریکہ جب تک انرجی پیدا کرنے کے پرانے ذرائع سے جڑا رہیگا باقی کی دنیا کو انہیں چھوڑنے کی ترغیب نہیں ملے گی ماہرین کے مطابق یہ نئی امریکی پالیسی ایک ایسا گیم چینجر ہے جو عالمی معیشت کے علاوہ عالمی سیاست پر بھی دیرپا اور دور رس اثرات مرتب کرے گا۔