آج کل کتابوں کا مطالعہ کم ہوتا جارہا ہے کتابوں کے ذخیروں سے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ رام پور اور بھوپال کے بعد ابھی اور دو مسلم ریاستوں کا سفر باقی تھا‘حیدر آباد دکن اور ٹونک‘ میرا حیدر آباد جانا کسی اعجاز سے کم نہ تھا میں پہنچا تو معلوم ہوا کل ہند اردو کانفرنس ہو رہی ہے اور ملک بھر کے دانشور وہاں جمع ہیں‘ان سے ملاقاتیں ہوئیں تو بے شمار کتب خانوں کی خبر ملی‘ جامعہ عثمانیہ کا کتب خانہ دیکھا جہاں کبھی اردو‘فارسی‘عربی اور دینی کتابوں کا جشن سا رہتا ہوگا اب وہی راہداریاں سونی پڑی تھیں اسی طرح سالار جنگ میوزیم لائبریری ہے وہاں قرآن کے ایسے ایسے نسخے ہیں کہ دیکھا ہی کیجئے‘ وہیں کتب خانہ سعیدیہ ہے جو زیادہ تر بند رہتا ہے اسی طرح ادارہ ادبیات کا کتب خانہ ہے جسے ڈاکٹر محی الدین قادری زور مرحوم نے قائم کیا تھا‘ان سب سے بڑھ کر نظام دکن کا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں جواہر پارے جمع ہیں مگر وہ سارے کے سارے نظام کی کنگ کوٹھی میں بند ہیں‘ پتا نہیں انہیں دیکھنا کس کے نصیب میں ہوگا ہوگا بھی یا نہیں۔حیدر آباد میں چونکہ ہر گھر میں ایک اسلحہ خانہ اور کتب خانہ ہوا کرتا تھا اسلئے وہاں کمیاب کتابوں کی بہتات تھی اور میرے دورے کے وقت پرانی کتابوں کے کئی تاجر جو اگرچہ بوڑھے‘ ہوچلے تھے مگر موجود تھے۔سید محمد عبدالرزاق عرشی صاحب کا کتب خانہ‘جسے دکان کہتے ہوئے جی دکھتا ہے‘دکن کی کسی شہزادی کے مقبرے میں قائم تھا‘عرشی صاحب نے عمر بھر کتابیں جمع کیں اور انہیں سنبھال کررکھا‘ دوسرے تاجر علیم الدین صاحب تھے وہ تو کتابوں کے پیچھے دیوانے تھے مگر حیدر آباد کا جو حیرت انگیز کتب خانہ تھا وہ شہر کے ایک موٹر مکینک محمدعبدالصمد خاں نے اپنے شوق سے قائم کیا تھا جہاں کہیں پرانی کتابیں فروخت ہوتی تھیں عبدالصمد خاں وہاں پہنچ جاتے تھے اور اس طرح ان کا کتابوں کا مینارہ بلند سے بلند تر ہوتا گیانتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹریٹ کرنے والے طالبعلم اپنی تحقیق کے لئے انکے کتب خانے میں کئی کئی مہینے گزارتے تھے مگر شہر کے دانشور یہ کہہ کر ان کی تذلیل کیا کرتے تھے کہ وہ تومعمولی سے موٹر مکینک ہیں‘ٹونک کا عربک اینڈ پرشین‘ریسرچ انسٹیٹیوٹ میرے لئے بانہیں پھیلائے کھڑا تھا اس کے نگران صاحبزادہ شوکت علی خان نے ریڈیو پرسن رکھا تھا کہ میں قدیم کتابوں کی تلاش میں نکلا ہوا ہوں وہ میرا انتظار کررہے تھے اب جو ملے تو یوں لگا کہ نذر باغ کی چبوترے والی کوٹھی میرے استقبال کو آراستہ تھی۔ایک اور مقام پر رضا علی عابدی ایک سفرنامے کی روداد میں لکھتے ہیں کہ آباؤ اجداد کی کتابوں کی تلاش میں سرگرداں میں لکھنو پہنچا جہاں ہماری حسینہ باجی کے شوہر مسعود حسن رضوی مرحوم کا گھرانہ آباد ہے انکے بیٹے نیئر مسعود رضوی نے لکھنؤ کے کتب خانوں اور کتابوں کے ذخیروں کی نشاندہی کی ان ہی کی نشاندہی پرمیں قدیم کتابوں کے اتنے ہی قدیم اور بزرگ تاجر آغا نا در سے ملنے انکی دکان پر پہنچا ان غریب کا اور انکے ذخیرے میں موجود کتابوں کا چل چلاؤ قریب تھا انہیں دنیا سے جاتے ہوئے اس بات کا رنج تھا کہ انکی اولاد کو نایاب کتابوں سے کوئی لگاؤ نہیں‘میرا اگلا پڑاؤ عظیم ریاست بہار کا عظیم دارالحکومت پٹنہ تھا جہاں اردو کے شجر پر ہزار رہا گل بوٹے کھلے تھے اور جہاں اردو‘ فارسی اور عربی کتابوں کا دوسرا بڑا ذخیرہ تھا خدا بخش لائبریری کے نگران ان دنوں عابد رضا بیدار تھے جنہوں نے مجھے دکھانے کیلئے اپنے کتب خانے کے سارے دروازے‘تمام الماریوں اور وہ تجوری بھی کھول دی جس میں بے حد نادرونایاب کتابیں اور تصویریں رکھی جاتی ہیں‘میں آج بھی کہتا ہوں کہ ویسا جیتا جاگتا کتب خانہ میں نے برصغیر میں کہیں نہیں دیکھا‘وہاں تحقیق‘ طباعت اور اشاعت کا ایسا کام ہورہا تھا کہ جی خوش ہوگیا پٹنہ میں اردو سروس کے سامعین کی ٹی پارٹی بھی تھی کیسے پیارے لوگ تھے اور کیسی چاہ سے ملے تھے چائے خانے سے اٹھ کر سارے میرے کمرے میں آگئے اور پھر بڑی مشکل سے گئے‘ہماری اردو سروس کے بلاشبہ سب سے بڑے قدر داں جناب جہاں قدر چغتائی بھوپال میں آباد تھے‘ میرے وہاں پہنچتے ہی انہوں نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا اور کتابوں کے ذخیروں کی زیارت کرائی‘ شہر کی مولانا آزاد لائبریری سرشام بند ہورہی تھی‘ یہ کتابیں اسی زمانے کی الماریوں میں آراستہ تھیں ان الماریوں کی لکڑی دکن سے تحفہ کے طور پر آئی تھی اس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں کبھی دیمک نہیں لگے گی اس کتب خانے میں والیان ریاست کے ذاتی ذخیروں زسے ملنے والی کتابیں بھی موجود تھیں میں جن دنوں وہاں تھا‘سنا تھا کہ حکام ریاستی دور کی اس شاندار سرخ عمارت میں لائبریری بند کرکے پولیس کا دفتر کھولنے والے ہیں۔