دریائے سندھ یوں تو خاموشی سے بہا جارہا ہے لیکن اگر اس کے منہ میں زبان ہوتی تو یہ رات دن تاریخ کی داستانیں سنایا کرتا۔یہ بتایا کرتا کہ کیسے کیسے لشکروں نے اسے پار کیا،کیسی کیسی فوجیں اس کے کنارے آپس میں ٹکرائیں اور کب کب اس کا پانی سرخ ہوا‘دریائے سندھ کے دوکناروں پر دومقامات ایسے ہیں جو میں خاص طور پردیکھنا چاہتا تھا پشاور کی جانب ہنڈاور راولپنڈی کی جانب حضرو‘شمال سے جو لشکر ہندوستان آیا کرتے تھے ان کے گھوڑے اسی ہنڈ کے مقام پر دریا میں اترتے تھے اور احتیاط سے قدم اٹھاتے ہوئے اسی حضرو کے قریب دوسرے کنارے پر چڑھتے تھے،یہی کنارہ چھچھ کہلاتا ہے میں اسی چھچھ کو دیکھنے حضرو پہنچا‘ کہتے ہیں کہ 24میل چوڑا اور 12میل لمبایہ علاقہ پیالے کی شکل کا اور پان کے پتے جیسا ہے اس کے تین کنارے اونچے اور چوتھا کنارہ نیچا ہے بالکل جیسے اپنی طرف دانے پھٹکنے کا چھاج ہوتا ہے سکندر اعظم اسی چھچھ کے گاؤں ملاح میں داخل ہوا تھا سن ایک ہزار کے ذرا بعدراجہ آنند پال اور محمود غزنوی کی لڑائی یہی حضرو کے مقام پر ہوئی‘ میں حضرو پہنچا تو شہر کے گرد سرسبز فصلیں کھڑی تھیں کھیتوں میں ٹیوب ویل اور ٹریکٹر چل رہے تھے زمین سے ہرے پودے پھوٹے پڑرہے تھے اور ہوا تک کی رنگت سبز ہوگئی تھی،کسانوں کے بیٹے شہر کے انٹر کالج کی طرف جارہے تھے اور دکانیں کھل رہی تھیں‘میں حضرو کے کوٹلہ بازار پہنچا‘جہاں میری ملاقات محمد روح اللہ خان صاحب سے ہوئی یوں تولوہے کے سامان کی دکانیں چلاتے ہیں مگر غزل بھی کہتے ہیں اور ادب سے بھی گہرا تعلق ہے‘اس چھوٹے سے شہر سے چھوٹا سا ادبی رسالہ نکالتے ہیں اور شعرو سخن کی محفلیں آراستہ کرتے ہیں‘میں نے محمد روح اللہ خان صاحب سے پوچھا کہ آپ کے شہر حضرو اور آپ کے علاقے چھچھ کا اب کیا حال ہے‘اس میں اب کیسے لوگ آباد ہیں؟ وہ کہنے لگے ’یہاں پر مختلف لوگ آباد ہیں ان میں پٹھان بھی ہیں،کشمیری بھی ہیں،قریشی بھی ہیں اور بہت سے کام کرنے والے لوگ ہیں۔ویسے بھی حضرو ایک قدیم شہر ہے جس کی تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔یہ ضرور ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بہت فرق پڑا ہے۔کاروبار بھی بڑھا ہے۔تعلیمی پسماندگی دور ہوئی ہے۔لوگ اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی لے رہے ہیں۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)