کتب بینی اور کتابوں سے محبت کم ہوتی جارہی ہے ماضی میں اس کا عالم کیا تھا معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ایک پروگرام کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ جب بی بی سی سے کتب خانہ کے عنوان سے پروگرام ہونے لگا اسی روز سے سامعین کے خطوں کا تانتا بندھ گیا وہ کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی کتابوں کا ذکر کسی نعمت سے کم نہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ خط لکھنے والے سامعین دو قسم کے تھے ایک تو وہ جنہیں حصول علم سے لگاؤ تھا اور دوسرے وہ جو کتاب پڑھنے کے معاملے میں ذرا سست ہیں تعریفوں نے طول کھینچا اور اوپر سے یہ کہ نہایت اعلیٰ طبقے کے اہل علم حضرات کے خط آنے شروع ہوئے پروفیسر آل احمد سرور‘ مولانا امتیاز علی خاں عرشی زادہ اور ابن انشاء مرحوم کے خطوں نے بی بی سی کی انتظامیہ کو بہت متاثر کیا اور مجھے اشارہ مل گیا کہ بارہ ہفتوں کی پابندی ختم جب تک چاہو پروگرام جاری رکھو اور ہر پروگرام جو صرف دس منٹ کا ہوتا تھا اس کا دوانیہ بڑھا لو۔بس پھر جو یہ دامن کشادہ ہوا تو میں کتب خانوں سے جھولیاں بھربھر کر کتابیں لایا اور باقاعدگی سے سننے والوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں مالا مال کردیا ابن انشاء مرحوم ان دونوں نیشنل بک کونسل آف پاکستان کے سربراہ تھے انہوں نے اپنے ادارے کے ماہنامے میں کتب خانہ کے پروگرام قسط وار چھاپنے شروع کردیئے کئی کتابوں نے اہل علم حضرات کو چونکایا مثلاً’جواہر منظوم‘ کے عنوان سے ایک کتاب کا ذکر آیا اس میں بچپن کے موضوع پر کچھ نظمیں انگریزی سے ترجمہ کی گئی تھیں پڑھنے کے دوران پتا چلا کہ ترجمے کے بعد یہ نظمیں الہ آباد سے دہلی غالب کے پاس بھیجی گئیں اور جب ان کی نگاہ سے گزر گئیں تو 1849ء میں شائع ہوئیں یہ پروگرام نشر ہوتے ہی رام پور سے اپنے دور کے جید عالم مولانا امتیاز علی عرشی کا خط آیا کہ غالبیات کے ماہروں کے لئے یہ تو بڑا انکشاف ہے اور جیسے بھی بنے مجھے اس کتاب کی نقل بھجوا دیجئے میں مولانا کا حکم کیسے ٹال سکتا تھا کتاب کی نقل انہیں بھجوادی مگر ان کے اشتیاق کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے کتاب کا اصل نسخہ ہندوستان ہی میں ڈھونڈ نکالا پروگرام کتب خانہ تقریباً ڈھائی سال جاری رہا اس دوران کتنے ہی صدا کاروں نے اس میں حصہ لیا مثال کے طور پر ’اندر سبھا‘ کے اقتباس ڈرامے کی شکل میں پیش کئے گئے تو اس میں کالے دیو اور سبز پری کے کردار ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے معروف صدا کار اور اداکار محمود خان مودی نے ادا کئے تاجدار اودھ واجد علی شاہ کے دور میں جب یہ ناٹک کھیلا جاتا تھا تو اس میں عورتوں کے کردار نو عمر لڑکے ادا کیا کرتے تھے چنانچہ بی بی سی کے اسٹوڈیوز میں یہ فرض محمود خاں مودی نے نبھایا۔پولیس تفتیش میں بعض اہم مرحلے سامنے آتے ہیں جن میں ہرکسی سے پوچھ گچھ ہوتی ہے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی ریڈیو پروگرام کا قصہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک خط کے ساتھ عجب قصہ ہوا جس کے نتیجے میں ہم عدالت میں طلب کئے جاسکتے تھے ہوا یہ کہ پاکستان سے دو حضرات لندن آئے اور وہ بھی اس شان سے کہ اپنے سامان میں ہیروئن چھپا کر لائے لندن کے ہوائی اڈے پر پکڑے گئے اور تلاشی کے دوران ان کے سامان سے ایک خط برآمد ہوا جو پاکستان سے کسی نے میرے اور پروگرام انجمن کے نام لکھا تھا پولیس والے سمجھے کہ کوئی بڑا سراغ ہاتھ لگا ہے خط کا انگریزی میں ترجمہ کراکے سوسو بار پڑھا گیا کہ شاید اس میں کوئی بڑا راز چھپا ہو ساتھ ہی پولیس والوں نے مجھ کو بھی دبوچا اور پوچھا کہ خط لکھنے والا کون ہے اور اس سے تمہارا کیا تعلق ہے؟ میں نے انہیں ویسے ہی کئی ہزار خط دکھا کر بتایا کہ ایسا ہی ایک خط ہے جو کسی سامع نے لکھا ہے اور چلتے ہوئے ان لوگوں کو تھما دیا کہ لندن جاکر عابدی صاحب کو دے دینا پولیس نے کہا کہ یہی بات عدالت میں جاکر دہرا دوگے؟ مجھے جھٹ راضی ہوتا دیکھ کر انہوں نے بات وہیں ختم کردی البتہ جب دونوں مسافروں کو سزا ہوئی تو انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی۔حیرت ہے کچھ لے دے کر یا کسی بااثر شخص کے ٹیلی فون پرانہیں چھوڑا نہیں یہ کیسی پولیس ہے؟ ہمارے پروگراموں میں کبھی کبھی تحریری مقابلے بھی کرائے جاتے تھے انگلستان کی ایک شہزادی کی شادی ہورہی تھی ہمارے نگران صاحب کی رگ پھڑ کی اور انہوں نے تجویز پیش کی کہ سننے والوں کو شہزادی کا سہرا لکھنے کی دعوت دی جائے شاعروں کی تو یوں بھی کمی نہیں دیکھیں ہمارے سامعین کیسی کیسی سخن آرائی کرتے ہیں لیجئے صاحب‘اعلان ہونا تھا کہ ڈاک میں شہزادی اور ان کے دولہا کی شان میں سہرے آنے لگے اس سارے عمل میں دلوں کی قربت نے ایسی شکل اختیار کی کہ زیادہ تر خطو ں میں مجھے نام لے کر مخاطب کیا جانے لگا ایک خط پاکستان کے قبائلی علاقے سے کسی نوجوان نے لکھا ’عابدی صاحب‘ ہم لوگوں نے تھوڑی بہت تعلیم پالی ہے لیکن ہماری ماں بالکل ان پڑھ ہے اور اسے اردو بالکل نہیں آتی‘ اس نے کہا ہے کہ رضا عابدی کو لکھو کہ وہ جو خبریں پڑھتا ہے وہ میری سمجھ میں آجاتی ہیں۔میں نے وہ خط تمغہ بناکر اپنے سینے پر سجالیا‘انجمن میں کبھی کبھی سنجیدہ بحث بھی چھڑی‘پروگرام انجمن نے بی بی سی کو بے شمار دوست دیئے بھوپال کے جہاں قدر چغتائی اور کراچی کی ستارہ جبیں قاضی تو ہم لوگوں سے ملنے لندن آگئے ناظم آباد کراچی سے ایک لڑکی آندھی آئے یا طوفان‘اردو سروس کو خط ضرور لکھتی تھی ہم لوگوں سے ریڈیو پر کوئی بھول چوک ہو جائے تو ڈرتے تھے کہ اب اس لڑکی کا خط آئے گا اور ہم سے جواب طلبی ہوگی۔
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات