بیس سال میں سوا دو کھرب ڈالر لگانے کے بعدامریکہ نے بلا ٓخر اس گراں مایہ مہم سے جان چھڑا لی ہے اب چاہئے تو یہ کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق چین اور روس کی طرف توجہ دے عراق‘ شام‘ یمن‘ لیبیا‘ سوڈان اور صومالیہ میں بھی اسکی فوج اور خفیہ ایجنسیاں دیہاتوں تک پہنچ کر وار لارڈوں میں ڈالر تقسیم کر رہی ہیں تا کہ وہ امریکہ مخالف انتہا پسند تنظیموں کا قلع قمع کر دیں۔امریکہ کچھ توجہ اسطرف بھی دیکر مصروف رہ سکتا ہے دنیا کے تمام بر اعظموں میں دور دور تک اپنی طاقت کا ستعمال کرتے ہوئے اسے افغانستان کو چند مہینوں کیلئے اسکے حال پر چھوڑ دینا چاہئے مگر گذشتہ چند دنوں کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ واشنگٹن کو رہ رہ کر افغانستان کی یاد ستا رہی ہے ہم دو ہفتے پہلے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمین کے دورہ ہندوستان اور پاکستان کو رہنے دیتے ہیں اسکے بعد اسلام آباد میں نئے سفیر ڈونلڈ بلوم کے تقرر کے مضمرات پر بھی بات نہیں کرتے البتہ اتنا کہنا نہایت ضروری ہے کہ وینڈی شرمین کے ممبئی میں دئے گئے بیان کے مطابق اگرامریکہ پاکستان کیساتھ وسیع البنیاد تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتا تو پھر تین سال تک اسلام آباد میں اپنے سفارتخانے کو ایک ایمبیسڈر سے محروم رکھنے کے بعد اچانک اسمیں نئے سفیر کی تعیناتی چہ معنی دارد؟ کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے امریکہ کا اتنی تباہی اور رسوائی کے بعداب افغانستان سے کیا تعلق رہ گیاہے اسکے بارے میں مرزا غالب کے اس شعر سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
کابل ایئر پورٹ کی ہنگامہ آرائی کے بعد صدر بائیڈن کی مقبولیت کوجو دھچکا لگا ہے اسکے اثرات بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اسکے باوجود افغانستان کی یاد انہیں بھی ستا رہی ہے کابل میں اب اس طرح تو آنا جانا ہو نہیں سکتا جس طرح کہ اکتیس اگست سے پہلے ہوتا تھا اب اس جہان خراب کے دروازے پر دستک تو نہیں دی جا سکتی لوگ کیا کہیں گے ابھی تو پورے دو مہینے بھی نہیں گذرے اور جدائی کے لمحے عذاب بنتے جا رہے ہیں ایسے میں لے دے کے پاکستان ہی رہ جاتا ہے جہاں کسی حکمت کار کو بھجوا کر دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے۔اسلام آباد میں بھی اب پہلے جیسی شنوائی نہیں ہوتی مگر کیا کیا جائے
کوئے قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے
جو گزر جائے گزر جانے کو جی چاہے ہے
یہاں ہم مرزا غالب کے اس شعر کو رہنے دیتے ہیں‘ عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب۔۔دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک‘ البتہ افتخار عارف کے اس شعر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
وفا سرشت میں ہوتی تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
اسلام آباد والے جان چکے ہیں کہ اس دوستی میں رتی بھر فائدہ نہیں پہلے کی طرح اب بھی کہیں پلے سے کچھ نہ دینا پڑ جائے مگر اس ستمگر سے دشمنی بھی تو مول نہیں لی جاسکتی فیٹف اور آئی ایم ایف جیسے عفریتوں کی طنابیں اسکے ہاتھ میں ہیں لہٰذا بادل نخواستہ ہی سہی دو چار قدم تو ساتھ چلنا ہی پڑیگا مدت ہوئی وہاں سے Absolutely Not کاپیغام بھی دیا گیا مگر انگریزی کا محاورہ ہےHe does not take no for an answer یعنی وہ انکار والے جواب کو نہیں مانتا اسے اصرار ہے کہ
ہمارا اور تمہارا ساتھ ممکن ہے
یہ دنیا ہے یہاں ہر بات ممکن ہے
اسی لئے سی این این نے تئیس اکتوبر کو خبر سنائی کہ ”پاکستان نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے آمادہ ہے اگر امریکہ انڈیا کیساتھ اسکے تعلقات کو بہتر بنائے اور کاؤنٹر ٹیررازم کی کوششوں میں اسکی مدد کرے“ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اسکی تردید کی ہے مگر سی این این کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اراکین کانگرس کو دی گئی بریفنگ میں اس معاہدے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
گرد رسوائی ابھی جھاڑ کے بیٹھا ہوں ظفر
دل ہے کیا جانے کوئی اور حماقت کر دے