دھوپ اور سایہ 

جہلم سے آگے کا راستہ سوکھا پڑا تھا کسی زمانے میں لوگوں نے درخت کاٹ کر چولہوں میں جلا دیئے اور پھر جو بارشیں آئیں انہوں نے ننگی زمین کو خوب خوب پامال کیا پوری پوری زمینیں بہہ کر دریاؤں میں چلی گئیں اور دریا مٹی سے اٹ گئے تو ا پنے پرانے پاٹ چھوڑگئے‘ماہ رمضان کی تپتی دھوپ میں ہماری بس کھاریاں پہنچی کھاریاں کا یہ سارا خطہ بنجرپڑا تھا اور میں بس کی کھڑکی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر سایہ ڈھونڈ رہا تھا اس سائے کامعاملہ عجیب ہے آس پاس کہیں موجود نہ ہو تو آنکھیں اسے تلاش کرتی ہیں موجود ہو تو چاہے اس کے تلے جانے کی ضرورت نہ پڑے تب بھی یہ اطمینان رہتا ہے کہ سایہ موجود ہے اس روز دہکتی ہوئی سوکھی زمینوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب گھنے درخت آئے تو تشفی سی ہوگی میرے ایک ہم سفر نے کہا کہ درخت آگئے اب گجرات قریب ہے گجرات میں اکبر کی تین نشانیاں مجھے زبانی یاد تھیں حصار، یعنی قلعہ تو دور سے نظر آنے لگا نیچے سے ٹیلے کی چوٹی تک بہت اونچی فصیلیں اٹھائی گئی ہیں اور ان کے پتھر اتنی صفائی اور مضبوطی سے چنے گئے ہیں کہ اب تک ایسے صحیح سالم رکھے ہیں معلوم ہوتا ہے مزدور ابھی ابھی اجرت لے کر اور سلام کرکے گئے ہیں‘ قلعے تک جانے کیلئے مسلسل چڑھائی ہے اس چڑھائی کی دونوں جانب دکانیں اور مکان ہیں اتفاق سے باؤلی اور کہنہ حمام اس راستے میں مل گئے باؤلی یعنی کنواں کبھی یوں رہا ہوگا کہ لوگ اس تک آسانی سے پہنچ سکیں مگر اب وہ مکانوں کے دالان میں آگیا ہے ہم صاف ستھرے بلندی پر بنے ہوئے ہو ادار کمروں کی دہلیزوں سے گزر کر کنویں تک پہنچے‘ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ اگر کوئی کنواں دیکھنے جائیں تو اس کے اندر جھانکتے ضرور ہیں جرنیلی سڑک کے اس سفر میں ہم نے ایسے بہت سے کنویں جھانکے اس گجر ات کے کنویں پر ایک بہت پرانی عبارت دکھائی دی کسی خوش خط پینٹر نے اردو اور گورمکھی میں لکھا تھا براہ کرم کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں‘ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا اس باؤلی سے ملا ہوا اوپر چڑھتی ہوئی بازار نما سڑک کے کنارے اکبر کا بنوایا ہوا حمام بھی تھا یہاں غسل خانوں کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی اور لوگ بھاپ میں غسل کرتے تھے۔‘ پورے شہر میں لوگ پرانی عمارتوں کو توڑ توڑ کر فلیٹ آفس‘ مارکیٹیں اور دکانیں بناتے چلے جا رہے ہیں تمام بڑی سڑکوں کے کنارے اب دکانیں ہی دکانیں ہیں اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ عالم میں نے پشاور سے کلکتے تک دیکھا کیا گوجرانوالہ کیا آگرہ‘ کیا کانپور اور کیا بنارس‘ اس ڈیڑھ ہزار میل کی پٹی میں اتنی مارکیٹیں اور اتنی دکانیں تعمیر ہو رہی ہیں کہ ان کی قطار کو شمار کرنا مشکل ہے راہ میں پڑنے والے دیہات میں بھی دکانوں پر دکانیں بن رہی ہیں ہر شخص کچھ نا کچھ بیچ رہا ہے جو بیچ نہیں رہا ہے وہ کچھ نہ کچھ خرید رہا ہے۔پنڈی کا حال اب یوں ہے کہ پہلے جہاں پنساریوں کی‘ عطاروں کی‘ کپڑے اور جوتے والوں کی‘ حقے اور تمباکو کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہاں اب کمپیوٹر کی‘ ویڈیو کی اور الیکٹرانکس کے جدید آلات کی دکانیں مال اسباب سے بھری پڑی ہیں جہاں لوگ کھڑے کھڑے مالٹے اور گنے کا رس پیتے تھے اور روٹی کے ساتھ مرغ چھولے کھایا کرتے تھے وہاں اب وہ کھڑے کھڑے جدید مشینوں پرفوٹو کاپی نکلوا رہے ہیں‘ ایک کیسٹ کے گانے پلک جھپکتے دوسرے کیسٹ میں اتروا رہے ہیں جاپانی کیمروں سے نکلی ہوئی امریکن رنگین فلمیں اپنے سامنے دھلوا کر کمپیوٹرائزڈ مشینوں سے چمکدار تصویریں نکلوا رہے ہیں مرغ چھولے اب ائرکنڈیشنڈ ریستورانوں کے اندر ملتے ہیں اور گنے کیساتھ نہ صرف لیموں بلکہ پودینے کے پتے اور ادرک کے ٹکڑے بھی پس رہے ہیں۔اب جاپان کی بنی ہوئی ویگنیں چل رہی ہیں اور ان میں ٹھسے ہوئے لوگ مالکوں کو کوس رہے ہیں کہ پوچھا نہ گچھا جب جی چاہا کرایہ بڑھادیا۔(رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)