زیرو پوائنٹ

کلکتے تک جرنیلی سڑک کا اپنا پندرہ سو میل کا سفر شروع کرنے کے لئے میں پشاور پہنچا ٗ وہی صبح کی دُھند میں ڈوبا ہوا کسی پرانے زمانے کا شہر ٗ وہی سویرے سویرے روانہ ہونے والی بسوں کے شور میں دبی ہوئی مرغ کی بانگ اور نئی نئی پیلی دھوپ میں سونے کی طرح چمکتے ہوئے مغلوں اور درانیوں کی مسجدوں کے بلند قامت مینار۔مجھے اس جگہ کی تلاش تھی جہاں سے جرنیلی سڑک شروع ہوتی تھی اس پہلے پتھر کی جستجو تھی جو اس عظیم شاہراہ کا زیرو پوائنٹ کہلاتا ہوگا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ صدر کے علاقے میں جس جگہ پرانا ڈاک بنگلہ تھا وہیں سڑک کے کنارے ایک بڑا سا سفید پتھر کھڑا نظر آیا کرتا تھا ٗ جی ٹی روڈ شاید وہیں سے شروع ہوتی تھی ٗمگر اب کچھ عرصے سے وہ پتھر نظر نہیں آتا۔یہ سن کر میں زیرو پوائنٹ کے پتھر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ٗجہاں سرکار انگلیشیہ کا ڈاک بنگلہ تھا وہاں اب کنکریٹ کی اونچی عمارت کھڑی تھی ٗاور اس کے سامنے سڑک کے کنارے ایک بڑا سامیل کا پتھر اوندھا پڑا تھا جیسے اسے دھکیل کر نالی کے اوپر پل بنادیا گیا ہو۔میں لپک کر اس کے قریب گیا اور جھک کر غورسے دیکھا۔ ایک صدی پرانے اس پتھر کے سارے نقوش اب مٹ چکے تھے البتہ اس پر کھدا ہوا ایک بڑا سا گول صفر یوں نظر آیا جیسے وہ پتھر حیرت سے منہ کھولے مجھے دیکھ رہا ہو۔یہی جرنیلی سڑک کا پہلا پتھر تھا۔اس پر مجھے یوں جھکا دیکھ کر ایک آٹو رکشہ والا میرے قریب رک گیا ٗمیں نے اپنا تھیلا دوبارہ کاندھے پر لادا اور رکشہ والے سے بولا ٗچلو گے؟اُس نے پوچھا! کہاں چلیں گے؟میں نے کہا! کلکتہاس نے کہا! بیٹھ جائیے۔وادیوں میں ٗپہاڑیوں پر ٗسبزہ زاروں اور سپاٹ کھیتوں میں دوڑتی ہوئی یہ سڑک اب ساڑھے چار سو سال پرانی ہو رہی ہے وادیئ پشاور سے گزر کر ٗدریائے کابل کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی اور دریائے سندھ پارکرتی ہوئی یہ سڑک حسن ابدال پہنچتی ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں دلی اور کابل کے درمیان سب سے دل کش پڑاؤ تھا۔ایک اور مقام پر قدیم سراؤں کے حوالے سے رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہحسن ابدال سے آگے بڑھیں تو واہ چھاؤنی ہے‘وہاں مغلوں کے دور کی بہت بڑی باولی ابھی تک اچھی حالت میں موجود ہے‘کسی زمانے میں لوگ‘انکے مویشی اورہاتھی گھوڑے باولی کی سینکڑوں سیڑھیاں اتر کر سیراب ہوا کرتے تھے‘اب لوگ یہ مشقت نہیں کرتے بلکہ پمپ کے ذریعہ پانی کھینچ لیتے ہیں‘واہ سے آگے سرائے کالا ہے‘جی ٹی روڈ پر یہ چھوٹا سا قصبہ ہے‘ظاہر ہے کہ کبھی اس جگہ مسافروں کیلئے سرائے رہی ہوگی‘جہانگیر نے بھی یہاں پڑاؤ ڈالا تھا‘اسوقت اس جگہ کا نام کالا پانی تھا  ایک دلچسپ بات یہ ہے شیر شاہ اور مغلوں کے زمانے میں جو ہزاروں سرائیں بنائی گئی تھیں بعد میں انکے گرد بستیاں آباد ہوتی گئیں‘خود سرائیں نہیں رہیں البتہ آبادیوں کے نام کیساتھ لفظ’سرائے‘ جڑا رہ گیا  مردم شماری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان پاکستان میں کئی سو شہروں‘قصبوں اور دیہات کے ناموں کیساتھ لفظ سرائے لگا ہوا  ہے‘ اگرنقشے پر ان تمام مقامات کو لکیروں سے ملایاجائے تو کیا قدیم سڑکوں کا نقشہ خودبخود نہیں ابھرے گا؟ جہاں یہ سرائے کالا ہے وہاں سے صرف چند کلومیٹر دور ٹیکسلا کے کھنڈر ہیں۔ سرائے کالا سے چارمیل آگے مرگلا کی پہاڑی دیوار بن کر کھڑی ہے‘پہاڑی میں ایک کٹاؤ ہے لیکن اس دن میں سوچنے  لگا کہ اس پچیس تیس ہاتھ چوڑے پہاڑی شگاف کے راستے ہزاروں برسوں کے دوران ان گنت قبیلے‘قافلے اور لاؤ لشکر گزرے ہونگے چین‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا‘ایران اور ایشیائے کوچک سے چاہے ایک تنہا مسافر آیا ہو چاہے ایک لشکر جرار‘ وہ سب مرگلا کے اس کٹاؤ پر چڑھے ہونگے اور اوپر پہنچ کر انہوں نے دوسری طرف کا نظارہ کیا ہوگا تو تاحدنگاہ ہندوستان ہی ہندوستان دکھائی دیا ہوگا‘ مرگلا کا یہ تاریخی کٹاؤ ابھی موجود ہے‘ جسے دیکھناہو فوراً جاکر دیکھ لے کیونکہ پہاڑی پتھر کاٹ کاٹ کر فروخت کرنیوالے بیوپاریوں کی جدید مشینیں اس پہاڑی پر اس طرح ٹوٹی پڑی ہیں جیسے قند کی ڈلی پر بھوکی چیونٹیاں۔ (رضا علی عابدی کے نشر پروگرام سے اقتباس)