کہاں وہ بلند اقدار اور کہاں ہمارے رویئے‘ تب ہی تو ثریا سے زمین پر ہم آگئے ہیں نہ فضول خرچی‘ نہ کسی کا احسان لینا اور سرکاری خزانہ وہ تو مقدس امانت جانا جاتا تھا وزراء کو چائے پلانے کی بھی ممانعت کر رکھی تھی اور آج دیکھیں کیا کیا ہو رہا ہے کس کس چیز کی بندربانٹ نہیں ہو رہی ایک واقعہ پڑھ کر خود اندازہ لگالیں کہ بلندی سے پستی کا یہ سفر کیسے طے ہوگیا۔بہن کا عالم یہ ہے کہ لمحہ لمحہ دل کی دھڑکن بڑھ رہی ہے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے۔ بھائی کا حال یہ ہے کہ ذرا گھبراہٹ نہیں چہرے پر سکون زبان پر قابو حرکات و سکنات میں وہی وقار و تمکنت وہی آن بان جو مزاج کا خاصا ہے پلنگ کی پٹی نے پکڑ لیا ہے اٹھ کر بیٹھنا دوبھر ہے لیکن مزاج کا بانکپن وہی ہے۔ پچھلے ایک دو روز سے بیماری نے زیادہ زور پکڑا ہے اس لئے ڈاکٹر دن رات موجود ہیں چل چلاؤ کے دن آگئے ہیں ڈاکٹروں نے امید چھوڑ دی ہے یہی بات بہن کا کلیجہ نوچ رہی ہے۔ ایک دن ایسا آیا کہ ڈاکٹروں نے طے کیا اب یہاں سے چلو‘ پہاڑ پر رہنا مریض کیلئے فائدہ مند نہیں اسے تو کسی میدانی علاقے میں لے جانا چاہئے یہاں کی ہوا کا دباؤ موافق نہیں سوال یہ تھا کہ مریض سے یہ بات کہے کون؟ سب کی نظریں بہن پر تھیں انہیں سے کہا گیا کہ آپ ہماری مشکل حل کر دیجئے۔ فرما دیجئے کہ ڈاکٹر جگہ بدلنا چاہتے ہیں بہن نے جواب دیا یہ بات مجھ سے نہ ہوگی تم ہی کہو۔ وہ ڈاکٹر کی بات ڈاکٹر ہی کی زبان سے سننا پسند کرینگے۔کرنل الٰہی بخش کبھی کنگ ایڈورڈ کالج لاہور کے پرنسپل ہوتے تھے‘ وہی خصوصی معالج تھے‘ اور انہی کی یہ تجویز تھی مگر مریض سے کچھ کہنے سے پہلے وہ دس دس بار سوچ لیتے یہ مریض تھا تو دھان پان لیکن ایشیاء کا سورما تھا اسے یہ نام ایک انگریز مصنف نے دیا تھا‘ بیونی نکلسن نے! مطلب یہ کہ وہ بڑی سوچ و فکر اور بڑے کردار کا آدمی تھا اسی زمانے کی بات ہے کہ ڈاکٹر الٰہی بخش نے کہا۔ جناب والا! آپ کے رات کے کپڑے دو تین ہی ہیں میں نے شب خوابی کے کچھ نئے سوٹ فوراً تیار کرنے کا حکم دے دیا ہے آپ کے پاس سوتی کپڑے کے سوٹ ہیں‘میں نے اونی سوٹ بنوائے ہیں تاکہ آپ کو تکلیف نہ ہو۔ سوال ہوا آپ نے آرڈر دے دیا؟ جواب ملا جی ہاں! فرمایا میرے لئے کوئی چیز میری اجازت کے بغیر نہ منگوائی جائے ڈاکٹر صاحب دم بخود ہوگئے اونی سوٹوں کی بات ہی کیا تھی ان کے بچوں کے پاس ایسے کئی سوٹ تھے کچھ لمحے خاموشی میں گذرے تو مریض نے فرمایا۔۔ہم لوگ خرچ کے معاملے میں بڑے تیز ہوتے ہیں فضول خرچی ہماری عادت ہوگئی ہے خرچ کرنے سے پہلے بار بار سوچو کہ یہ خرچ نہ کرو گے تو کیا کمی رہ جائیگی میرے پاس جو شب خوابی کے سوتی کپڑے ہیں وہ میری ضرورت کیلئے بہت کافی ہیں یہ بات وہ شخص کہہ رہا تھا جس کے پاس پیسے کی ریل پیل تھی اور اس وقت وہ ایک مملکت کا سربراہ تھا کرنل الٰہی بخش اسی لئے بڑی ادھیڑ پن میں مبتلا تھے کہ جگہ بدلنے کی بات کس طرح کہیں‘آخر جی کڑا کر کے ایک دن انہوں نے یہ بات چھیڑ دی کہ تبدیلی آب و ہوا ضروری ہے‘ پوچھا گیا کیوں؟ ڈاکٹر نے کہا زیارت کے اس پہاڑی علاقے کا موسم اب آپ کیلئے مفید نہیں‘اچھا! تو پھر آپ کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ عرض کیا گیا۔۔ کراچی! فرمایا۔۔ نہیں میں اس حال میں گورنر جنرل ہاؤس نہیں جانا چاہتا۔ ڈاکٹر کو اس بات کا پہلے ہی سے اندازہ تھا اس لئے ڈاکٹر نے بڑے ادب سے کہا ہم آپ کو کراچی کے قریب ملیر میں ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ پوچھا وہاں میں کہاں رہوں گا؟ عرض کیا گیا اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ کی طرف سے نواب صاحب بہاولپور کو فون کر دیا جائے ان کی ایک کوٹھی ملیر میں ہے انہیں وہاں آپ کوٹھہراکر بڑی خوشی ہوگی۔ دو ٹوک جواب ملا اور ذرا سختی سے۔۔ نہیں! ڈاکٹر بخش بڑی الجھن میں پڑ گئے کہ کیاکریں کیا نہ کریں کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مریض نے کہا جب میں بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کرتا تھا تووہاں روایت یہ تھی کہ کوئی شخص جج بنتا تو مقامی اخبار پڑھنا چھوڑ دیتا تھا تم سمجھے کس لئے؟ ڈاکٹر نے ادب سے عرض کیا جی نہیں! فرمایا اس لئے کہ کوئی مقامی خبر ایسی نظر سے نہ گزر جائے کہ کل کو مقدمہ اجلاس پر پیش ہو تو پہلے ہی اس کے بارے میں کوئی رائے قائم رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا جی میں سمجھ گیا کچھ ٹھہر کر مریض نے کہا تم جانتے ہو میں گورنر جنرل ہوں کئی والیان ریاست میرے ماتحت ہیں میں کسی سے کوئی خصوصی برتاؤ نہیں کر سکتا نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی کرسی کی وجہ سے کسی کا احسان مند بنوں کاش! ہم سمجھیں کہ یہ اصول ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے اس اصول کو سمجھ کراس پر عمل کرنے والا یہ مریض کوئی اور نہیں ہمارا قائد تھا۔ (شاہ بلیغ الدین کے ریڈیو پاکستان سے نشر بیان سے اقتباس)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات