حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار دمشق میں بڑا سخت قحط پڑا ٹڈی دل نے لہلہاتے کھیت ویران کر دیئے ٹڈیاں گھاس اور درختوں کے پتے تک چٹ کر گئیں لوگ بھوکوں مرنے لگے ان ہی دنوں میری ملاقات ایک مال دار دوست سے ہوئی میں نے دیکھا کہ وہ بھی دوسرے لوگوں کی طرح پریشان حال ہے اور اسکے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ رہی ہیں اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی‘میں نے پوچھا تو جواباً وہ بولا اے سعدیؒ‘ کیا تم نہیں جانتے کہ کتنا سخت قحط پڑا ہوا ہے ہزاروں لوگ بھوکوں مررہے ہیں اناج کا ایک دانہ کہیں نظر نہیں آتا ٹڈی دل نے لہلہاتے کھیتوں کا ستیاناس کردیا ہے ہریالی کوسوں تک نظر نہیں آتی“میں نے کہا یہ تو میں جانتا ہوں بھائی لیکن تمہیں اس قحط سے کیا خدا کا دیا سب کچھ ہے تمہارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے میری بات سن کر میرے دوست نے آہ بھری اور کہا اے سعدیؒ!دل میں دوسروں کا درد ہو تو ایک درد مند دل رکھنے والا انسان دوسروں کو دکھ میں کیسے دیکھ سکتا ہے بے شک میں بھوک پیاس سے بچا ہوا ہوں لیکن دوسروں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے دیکھ کر میرا برا حال ہورہا ہے لوگ بھوکوں مررہے ہیں اور انکی یہ حالت دیکھ کر مجھے بھوک ہی نہیں لگتی میں یہ چاہتا ہوں کہ کوئی مجھ سے میرا سب کچھ لے لے اور اتنا اناج دے دے جس سے میں بھوک سے بے حال ان لوگوں کا پیٹ بھر سکوں“۔شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ ایک بادشاہ نے کسی جرم میں ایک شخص کے قتل کا حکم جاری کیا وہ شخص شدت غم میں پاگل ہوگیا اور اس نے بادشاہ کو خوب گالیاں نکالیں وہ کہتے ہیں کہ جب بندہ جان سے جانے لگتا ہے تو جو اس کے دل میں ہوتا ہے وہ کہتا جاتا ہے بوقت ضرورت جب بندہ بھاگ نہ سکے تو جلدی میں ہاتھ سے تلوار کی نوک کو بھی پکڑ لیتا ہے اور عربی زبان کے ایک شعر کا مفہوم ہے۔جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہوجاتی ہے اور جس طرح بلی گھبرا کر شیر پر حملہ کردیتی ہے۔بادشاہ اس شخص کی بولی سمجھ نہ سکتا تھا اس لئے وہ نہ جان سکا کہ یہ شخص اس کے متعلق کیا کہہ رہا ہے بادشاہ نے اپنے درباریوں سے پوچھا کہ یہ شخص مجھے کیا کہتا ہے؟ بادشاہ کے ایک نیک دل وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں۔بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس کا دل نرم پڑگیا اور اس نے اس شخص پر ترس کھاتے ہوئے اسے معاف کردیا بادشاہ کے جس نیک دل وزیر نے اس شخص کے متعلق یہ کہا تھا اس کے مخالف وزیر نے جو کہ اس سے حسد کرتا تھا اور موقع کے انتظار میں تھا اس نے بادشاہ کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم بادشاہ کے سامنے جھوٹ کہیں اور وہ شخص بادشاہ سلامت کو گالیاں دے رہا تھاجبکہ یہ وزیر موصوف کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ سلامت کی تعریف کررہا تھا۔بادشاہ نے جب دوسرے وزیر کی بات سنی تو اس پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے بولا کہ اے بدبخت! مجھے اس کاجھوٹ تیرے سچ سے زیادہ پسند آیا اور اس نے جھوٹ بول کر کسی کی جان بچانے کی کوشش کی اور اس کا ارادہ نیک تھا جبکہ تیرے سچ میں خباثت چھپی ہوئی ہے اور تیرے اندر کا حسد مجھے نظر آرہا ہے اور تیری نیت میں فتور ہے داناؤں کا قول ہے کہ وہ جھوٹ جو اپنے دامن میں خیر کا پہلو رکھتا ہو اس سچ سے اچھا ہے جس کی بدولت فتنہ شروع ہونے کا اندیشہ ہے بادشاہ جس شخص کے مشوروں پر عمل کرتا ہو اس پر افسوس ہوگا کہ وہ اچھی بات کے سوا کوئی بات منہ سے نکالے۔(بوستان سے ماخوذ)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات