جمہوریت کی نازک مزاجی

تین گھنٹوں سے مسلسل امریکہ کی پانچ ریاستوں میں ہونیوالے انتخابی نتائج دیکھنے کے بعد اب کسی دوسرے موضوع پر نہیں لکھا جا سکتا اب تک کے نتائج کے مطابق ورجینیا میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوارGlenn Youngkin تقریباّّ 86ہزار ووٹوں کی برتری سے گورنر کا الیکشن جیت رہے ہیں انکے مد مقابل ڈیموکریٹک پارٹی کے Terry McAuliff جنکا شمار صدر بائیڈن‘ سپیکر نینسی پلوسی اور بل کلنٹن فیملی کے دوستوں میں ہوتا ہے ایک زوردار مقابلے کے بعد شکست کھا چکے ہیں یہ ریپبلیکن پارٹی کیلئے ایک بہت بڑی فتح ہے ورجینیا میں ڈیموکریٹک پارٹی 2009 سے مسلسل قومی اور ریاستی انتخابات جیت رہی ہے صدر بائیڈن نے نومبر 2020 کے الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو یہاں ایک بڑے مارجن سے شکست دی تھی اب صرف ایک سال بعد اس ریاست کی سیاسی بساط الٹ گئی ہے ورجینیا کو ہمیشہ سے ایک Swing State سمجھا جاتا ہے ڈیمو کریٹ جوں توں کر کے اسے جیت لیتے ہیں مگر انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ یہ ریاست کسی بھی وقت انکے ہاتھ سے نکل سکتی ہے اور اب بلآخر ایسا ہو گیا ہے اس شکست کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہاں کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد انڈی پینڈنٹ ہے انکا کسی بھی جماعت سے تعلق نہیں وہ مقامی اور قومی سطح پر دونوں جماعتوں کے منتخب نمائندوں کی کارکردگی پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ورجینیا کا شہر الیگزینڈریا واشنگٹن ڈی سی سے صرف بیس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے بے ہنگم انخلا کے بعد بائیڈن انتظامیہ کے بارے میں جو بد اعتمادی کی فضا پیدا ہوئی وہ ابھی تک دور نہیں ہو سکی اسکے بعد بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چند ریاستوں میں کووڈ کی مخدوش صورتحال نے بھی ڈیمو کریٹک پارٹی کے اس زوال میں اپنا حصہ ڈالا ہے یہ زوال صرف ورجینیا تک ہی محدود نہیں نیو جرسی میں بھی چند منٹ پہلے کے انتخابی نتائج کے مطابق ڈیمو کریٹک پارٹی کے Phill Murphy چند ہزارر ووٹوں سے شکست کھا رہے تھے فل مرفی اسوقت نیو جرسی کے گورنر ہیں اور کل تک تمام سرویز کے مطابق وہ اپنے ریپبلیکن حریف Jack Ciatarelli سے نو پوائنٹس آگے تھے مبصرین یہی کہہ رہے تھے کہ فل مرفی آسانی سے دوسری مرتبہ گورنر منتخب ہو جائیں گے مگر اب انکی جیت بھی مشکل نظر آرہی ہے ہو سکتا ہے کہ وہ چند ہزار ووٹوں کی اکثریت سے جیت جائیں مگر یہ طے ہے کہ امریکہ کا سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے یہ تبدیلی اگر برقرار رہی اورڈیمو کریٹک پارٹی سے لوگوں کی شکایات میں اضا فہ ہوتا رہا توپھر اگلے سال ہونیوالے مڈ ٹرم انتخابات میں حکمران جماعت ہاؤس اور سینٹ دونوں ایوانوں میں اکثریت کھو دے گی اور یوں صدر بائیڈن ایک  Lame Duck صدر ہو جائیں گے‘امریکہ کے سیاسی مدو جذر پر گہری نگاہ رکھنے والے بعض دانشور یہ کہہ رہے ہیں کہ نیو جرسی ااور ورجینیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کا مارجن چند ہزار ووٹوں سے زیادہ نہیں اسلئے صدر بائیڈن اگر اپنی جماعت کو متحد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر لیں گے اسوقت صدر بائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ انکی جماعت کا انتشار ہے جسکی وجہ سے ابھی تک ڈیموکریٹک پارٹی تین ماہ  کی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد دو بل متحد ہو کر منظور نہیں کروا سکی صدر بائیڈن نے عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے 3.5 کھرب ڈالر کا ایک بل پیش کیا تھا جوابھی تک ہوا میں معلق ہے حکمران جماعت کے پروگریسو اور اعتدال پسند دھڑوں کو یکجا کرنے کیلئے صدر بائیڈن نے اس بل میں تخفیف کر کے اسے 1.85 کھرب ڈالر کر دیا پہلے بڑی رقم اعتدال پسند دھڑے کو قبول نہ تھی تو اب کم مالیت کا بل پروگریسو گروپ کو منظور نہیں ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر یہ اکھاڑ پچھاڑ ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایکطرف دو ریاستوں میں گورنر شپ کے الیکشن ہو رہے ہیں اور دوسری طرف صدر بائیڈن برطانیہ کے شہر گلاسکو میں ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں صدر امریکہ نے اس تخفیف شدہ بل میں بھی 555 بلین ڈالر  ماحولیات کے بحران پر قابو پانے کیلئے رکھے ہیں انکی پوری کوشش تھی کہ وہ یہ بل کانگرس سے منظور کروا کے گلاسکو جائیں تا کہ وہ یہ بات اعتماد کیساتھ کہہ سکیں کہ امریکہ کرہ ارض کو ایک بڑی تباہی سے بچانے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے لیکن انکی اپنی جماعت نے انہیں یہ موقع نہ دیا اور انہیں گلاسکو خالی ہاتھ جانا پڑایوں ڈیموکریٹک پارٹی کی دھڑے بندی نے انہیں دو محاذوں پر شکست سے دو چار کر دیا‘ورجینیا میں ٹیری میکالف کی 86 ہزار ووٹوں سے شکست کے بارے میں بعض مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ صدر بائیڈن کی گرتی ہوئی مقبولیت کے باوجود یہ الیکشن جیت سکتے تھے مگر انکے منہ سے نکلا ہوا ایک جملہ انکی شکست کا باعث بن گیا وہ قومی سطح کے ایک جانے پہچانے سیاستدان ہیں اورپہلے بھی ورجینیا کے گورنر رہ چکے ہیں وہ اپنی ریاست کی سیاسی باریکیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں مگر سیاست دوراں کے کسی کمزور لمحے انکے منہ سے ایک ایسی بات نکل گئی جو ووٹروں کی اکثریت کو پسند نہ تھی اور یوں وہ ایک جیتی ہوئی بازی پلک جھپکتے میں ہار گئے امریکہ کی جنوبی اور وسط مغربی ریاستوں کی طرح ورجینیا میں بھی سکولوں کا نصاب نہایت حساس مسئلہ ہے والدین یہ چاہتے ہیں کہ نصاب بناتے وقت انکی رائے کو اہمیت دی جائے اسکے برعکس اساتذہ  اور نصاب بنانے والے ریاستی ادارے اس معاملے میں والدین کے مطالبے کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں مداخلت سمجھتے ہیں منجھے ہوئے سیاستدان عام طور پر اس قسم کے تنازعوں میں الجھنے سے گریز کرتے ہیں مگر ٹیری میکالف نے ایک دن خم ٹھونک کر کہہ دیاکہ Parents should not be telling schools what they should teach یعنی والدین کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ سکولوں کو کیا پڑھانا چاہئے اس کے فوراّّ بعد تجزیہ نگاروں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب ٹیری میکالف کا جیتنا بہت مشکل ہے اور پھر وہی ہوا جسکا خدشہ تھا اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ یہ نہ کہتے تو کیا الیکشن جیت جاتے اس الیکشن میں کیونکہ تقریباً 32 لاکھ ووٹ ڈالے گئے ہیں اور ہار جیت کا فیصلہ86 ہزار ووٹوں سے ہوا ہے اسلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتنے اہم مسئلے پر اگر وہ اتنی دو ٹوک بات نہ کرتے تو یہ مقابلہ جیت سکتے تھے یہ بات اگر درست ہے تو پھریہ ماننا پڑیگا کہ جمہوریت کی نازک مزاجی کو تسلیم کئے بغیر الیکشن نہیں جیتے جا سکتے۔