شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ قسطنطنیہ کے ساحل پر ایک ایسا نوجوان آیا جس کی پیشانی نور سے چمک رہی تھی لوگوں نے اس نوجوان کو بہترین اخلاق والا پایا اور اسے نہایت عزت واحترام کے ساتھ نزدیکی مسجد میں لے گئے۔امام مسجد بھی اس نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہوا اور اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور اسے رہنے کے لئے مسجد سے ملحقہ ایک حجرہ بھی دیا۔ایک دن امام مسجد نے اس نوجوان سے کہا کہ صاحبزادے! تم کوئی خاص کام تو کرتے نہیں ہو مسجد کی صفائی کردیا کرو اور یہاں موجود کوڑا کرکٹ اٹھالیا کرو امام مسجد کی بات سننے کے بعد وہ نوجوان مسجد سے ایسا غائب ہوا کہ دوبارہ مسجد میں نظر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد امام مسجد ایک دن بازار میں ضروریات زندگی کے کچھ سامان کی خریداری کے لئے تشریف لے گئے تو انہیں وہی نوجوان بازار میں نظر آیا امام مسجد نے اس کو ملامت کیا اور اس سے کہا کہ تم کام چور ہو تم ایک معمولی کام نہیں کرسکے جبکہ میرا مقصود مسجد کی خدمت تھا امام مسجد کی بات سن کر اس نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ کہنے لگا کہ امام صاحب! مسجد سے چلا جانا میری کاہلی یا کام چوری نہیں بلکہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے مسجد میں اپنے سوا کوئی گندگی نظر نہ آئی چنانچہ میں نے خیال کیا کہ اللہ عزوجل کے گھر کو اس گندگی سے پاک کردوں بے شک دونوں جہانوں کی سعادتیں حاصل کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔عاجزی وانکساری میں ہی انسان کی بلندی ہے‘ہر طرح کے کبروغرور سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگل میں ایک فقیر اکیلا رہتا تھا ایک دن بادشاہ کا گزر اس جگہ سے ہوا فقیر نے اس بادشاہ کی جانب کوئی توجہ نہ کی بادشاہ چونکہ شان و شوکت والا تھا اس لئے فقیر پر ناراض ہوا اور کہا کہ یہ لوگ بے ادب اور غیر مہذب ہوتے ہیں۔بادشاہ کا وزیر اس فقیر کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے بندے! روئے زمین کا ایک بادشاہ تیرے پاس آیا اور تونے اس کی کوئی خدمت نہ کی اور نہ ہی اسے سلام کیا فقیر نے اس وزیر سے کہا کہ بادشاہ سے کہہ دے کہ خدمت کی امید ان سے رکھے جو اس سے انعام واکرام کی امید رکھتے ہیں بادشاہ کا کام عوام الناس کی خدمت کرنا ہے نہ کہ عوام الناس کا کام کہ وہ بادشاہ کی خدمت کریں۔ بادشاہ فقیر کا چوکیدار ہے اگرچہ اس کی بادشاہی کی وجہ سے فقیر اس کا تابعدار ہو بھیڑ چروا ہے کی خدمت کیلئے نہیں بلکہ چرواہا اس کی خدمت کے لئے ہوتا ہے ایک شخص اگر اپنا مقصود پالیتا ہے تو دوسرا نامراد رہتا ہے کچھ انتظار کر پھر دیکھنا کہ ظالم کا بھیجا مٹی کھا جائے گی جب تقدیر کا لکھا سامنے آتا ہے تو بادشاہ اور فقیر کا فرق ختم ہوجاتا ہے قبر کھودو گے تو یہ نہیں پتہ چلے گا کہ یہ بادشاہ کی قبر ہے یا فقیر کی۔بادشاہ نے جب فقیر کی باتیں سنیں تو وہ خوش ہوا اور کہا کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ فقیر نے کہا کہ میں یہیں چاہتا ہوں کہ تم دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرو۔بادشاہ نے کہا کہ مجھے کچھ نصیحت کرو فقیر نے کہا کہ ابھی وقت ہے کچھ کرلے ورنہ یہ نعمت تعمیر ہاتھ نہیں آئے گی اور حکومت تو آنی جانی شے ہے۔کسی بھی عہدے اور منصب پر پہنچانے والی ذات رب العالمین ہے اس میں انسان کا کوئی کمال اور اختیار نہیں‘ انسان کو اپنے عہدے اور منصب پر رہتے ہوئے ظلم وزیادتی سے اجتناب کرتے ہوئے لوگوں پر انصاف کرنا چاہئے‘ہر قسم کی لالچ سے انسان کو دور رہنا چاہئے‘اللہ کے نیک بندے اپنا ہر عمل اخلاص وللہیت کیلئے کرتے کیونکہ ریاکاری والا عمل کسی کام کا نہیں۔(حکایات سعدی سے ماخوذ)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات