شیخ سعدی رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ سیاحت کے شوقین تھے اور وہ چند برسوں سے ایک دوسرے کیساتھ تھے۔ وہ دوران سفر ایک دوسرے کی تکالیف اور آرام کا خاص خیال رکھتے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے بھی وہ اپنا ہم سفر بنالیں تو وہ اس پر راضی نہیں ہوئے۔میں نے ان سے کہا کہ بزرگوں کے اخلاق کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ وہ فقیروں کی صحبت سے دریغ کریں۔ میں ان شاء اللہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے چاک و چوبند اور چالاک ہوں آپ حضرات پر بوجھ نہ بنوں گا۔ اگرچہ میں کسی سواری پر سوار نہیں مگر آپ کی سواری کی زین اٹھانے والا ضرور بنوں گا۔ان حضرات میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپ محسوس نہ کریں تو درحقیقت ہم اس لئے انکار کررہے ہیں کہ اس سے قبل ایک چور بھیس بدل کر ہمارے درمیان آگیا تھا اور جب وہ ہم سے گھل مل گیا تو پھر وہ ہمارا قیمتی سامان چرا کر بھاگ گیا۔ بندہ کیاجانے کہ لباس میں کون ہے اور خط لکھنے والے کو ہی علم ہے کہ اس نے کیا لکھا ہے؟ اس لئے انہوں نے اس پر بدگمانی نہ کی اور اس کی دوستی کو قبول کرلیا۔عمل کی کوشش کرو، لباس جو بھی ہو سر پر تاج اور کندھے پر جھنڈا۔ دنیا، شہوت اور لالچ کو ترک کرنا ہی تقویٰ ہے نہ کہ گوڈری پہن لینا۔جنگی لباس پہننے سے بندہ بہادر نہیں ہوجاتا بلکہ بہادر ہونا جنگی لباس کیلئے اولین شرط ہے اور جنگی لباس بزدل پہن لیں تو ان کیلئے اس لباس کا کوئی فائدہ نہیں۔ایک رات ہم سفر کر رہے تھے اور سفر کے دوران ایک قلعہ کی دیوار کے نیچے سو گئے اس بدتمیز چور نے ایک ساتھی کا لوٹا لیا کہ میں ابھی واپس آتا ہوں اور ساتھ ہی سارا سامان بھی لوٹ کر لے گیا۔قافلے سے اوجھل ہوا تو ایک گنبد میں گھس کر ایک ڈبیہ چرالی۔ دن ہونے تک وہ دور جاچکا تھا اور سب ساتھی سوئے ہوئے تھے۔صبح تمام ساتھیوں کو قلعے میں بلاکر مارا پیٹا گیا اور قید کردیاگیا۔ پس اس دن سے ہم نے جان لیا کہ کسی کو ساتھ نہیں رکھنااور تنہائی کا راستہ ہی بہتر ہے اور اسی میں سلامتی ہے۔ اگر پوری قوم میں ایک بھی نادان ہو تو کسی چھوٹے بڑے کی عزت باقی نہیں رہتی۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ چراگاہ گاؤں کی تمام گایوں کو آلودہ کر دیتا ہے۔جس طرح ایک گندی مچھلی پورے تالاب کی صفائی کو متاثر کرتی ہے۔میں نے کہا کہ اللہ عزو جل کا شکر ہے کہ میں نے قافلہ والوں سے کچھ فائدہ حاصل کیا اگرچہ بظاہر میں آپ کے ساتھ سفر نہیں کرسکا مگر آپ نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ تمام عمر میرے کام آتا رہے گا۔ محفل میں اگر ایک بدتمیز آجائے تو ساری محفل پریشان ہوجاتی ہے اور اگر ایک خوض کو عرق گلاب سے بھر دیاجائے اور اس میں کتا گر جائے تو پورا حوض ناپاک ہوجاتا ہے۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ دیکھا کرو کہ تم کس کو دوست بنا رہے ہو کیونکہ دوست کسی کی پہچان ہوتے ہیں اگر کوئی انسان بہت ہی سلجھے ہوئے اخلاق کا مالک ہے تاہم اس کے دوست بد اخلاق اور بد تمیز ہیں تو ان دوستوں کی وجہ سے اس کو بھی برے نام سے یاد کی جائیگا۔ اس لئے تو کہا جاتا ہے کہ جس سے دوستی کرنی ہو پہلے اس کو آزماؤ اور اس کو خوب پہچان لیا کرو۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر انسان اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ رہ کر خوش اور مطمئن رہتا ہے، اگر بد اخلاق دوستوں کے محفل میں کوئی اطمینان محسوس کرے تو یہ اس کی نشانی ہے کہ اس کے اخلاق کمزور ہیں۔ورنہ وہ کیوں ایسے لوگوں کے ساتھ بے چینی کے بجائے چین اور سکون محسوس کرتا۔(حکایات سعدیؒ سے ماخوذ)
اشتہار
مقبول خبریں
پرانے لاہور کا حال
آج کی بات
آج کی بات
بات سے بات نکالنا
آج کی بات
آج کی بات
خدمت کا جذبہ
آج کی بات
آج کی بات
دوستوں کی اہمیت
آج کی بات
آج کی بات
مقصد کا حصول
آج کی بات
آج کی بات
ہوائی جہاز کے انجینئر کی تلاش
آج کی بات
آج کی بات