سرسید احمد خان جس دن دفن ہوئے اسکے دوسرے دن صبح صبح ایک گھریلو ملازم چائے کی کشتی لئے ان کی قبرپر پہنچا۔ پیچھے پیچھے ایک بڑے میاں تھے سید صاحب ہی کی طرح گھنی داڑھی ویسے ہی ساٹھے پاٹھے۔یہ زینو بھیا تھے‘نام انکا تھا زین العابدین۔ سب جج تھے۔ وظیفے پر الگ ہوئے تو سید صاحب کی محبت نے زورمارا سب چھوڑ چھاڑ کرعلی گڑھ میں بس گئے‘ آدمی طرحدار تھے۔د ھن کے پکے‘ بات کے سچے‘ دوستوں کے دوست اور ایسے دوست کہ وقت پر مرمٹنے کو تیار! سید صاحب انہیں زینو بھیا کہتے تھے۔عبدالرزاق کانپوری نے یادایام میں لکھا ہے کہ دونوں دوست صبح کی چائے ساتھ پیتے تھے۔ یہ برسوں کا معمول تھا۔ آندھی آتی‘ بارش ہوتی‘ جاڑا پڑتا اس معمول میں ذرا فرق نہ آتا۔ آخر27 مارچ1898ء کی تاریخ آئی‘ سید احمد خان دنیا سے چل بسے۔ زینو بھیانے کیا کچھ کھویا کوئی نہیں بتا سکتا۔ دفن کے بعد سارا وقت دوست کی یاد میں تڑپتے تڑپتے گزارا۔ صبح ہوئی تو چائے کے برتن کشتی میں سجاکر ملازم سوچنے لگا کہ کیا کرے؟ اتنے میں زینو بھیا نکل آئے فرمایا‘ کشتی لے کے میرے ساتھ چلو سید کیساتھ چائے پینی ہے! ملازم حیران و پریشان ان کا منہ تکتا رہا۔ فرمایا۔ چلو ان کی قبر پرچلتے ہیں۔ ملازم آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے قبر پر پہنچے۔ ایک طرف کو بیٹھ گئے۔ فاتحہ پڑھی‘ چائے پی‘ کچھ دیر بیٹھے رہے آخر آزردہ اور افسردہ اُٹھ کھڑے ہوئے پھر زندگی بھرا س معمول کو نبھایا کہ وضع داری کا تقاضایہی تھا۔دوستی اور رفاقت ایک شریفانہ جذبہ ہے۔ یہ جذبہ پختہ ہوجائے تووضع داری کہلاتا ہے! شاید یہ بات آپ نے کبھی کہی ہو اگر کہی نہیں تو سنی ضرور ہوگی کہ بھئی! اب دوست کہاں اور دوستیاں کہاں! نہ جانے وہ کیسے لوگ تھے جو ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ اب تو بس آپادھاپی ہے نفسانفسی! یہی بات اگلے وقتوں میں کسی نے ایک بزرگ سے کہی۔ بزرگ کون! حضرت جنید بغدادی۔ بڑے اللہ والے بڑے پہنچے ہوئے آدمی تھے! انہوں نے پوچھا۔ دوست کو ڈھونڈتے ہو؟ شکایت کرنے والے نے کہا‘ جی ہاں فرمایا‘ سچے دوست کو! جواب ملا‘ جی ہاں! اسی کا رونا تو رو رہا ہوں کہ سچا دوست کوئی نہیں ملتا۔ فرمایا عزیزم! دوست کی تلاش ہے تو یہ بھی بتاؤ کہ خود تم بھی کبھی کسی کے دوست بنے!کہاجاتا ہے پانچ آدمیوں سے بچو انہیں دوست نہ بناؤ!جھوٹا آدمی! نہ جانے کب دھوکا دے جائے۔ احمق! فائدے کو بھی وہ نقصان بنادیگا۔ بخیل! عین وقت پر دغا دینا اس کی فطرت ہے۔بزدل۔ یہ کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔ فاسق! اس سے بھاگو کہ وہ کسی وقت بھی ایک لقمے کے بدلے تمہیں بیچ دیگا۔ سوچئے کہیں ان پانچوں میں سے کوئی برائی آپ میں تو نہیں اگر ہو تو بدل جائیے۔ اللہ بڑا مہربان ہے وہ آپکا دل پھیر دیگا۔حضرت ابودرداصحابی رسول اللہ تھے۔ بڑے عابد وزاہد، قرآن وحدیث کے بڑے عالم! دمشق میں قرآن کا درس دیتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ ایک ایک وقت میں سولہ سولہ سوطالبعلم انکے درس میں ہوتے‘ ایک مرتبہ میدان میں کھڑے رو رہے تھے‘کچھ لوگ ادھر سے گزرے تو انہیں دیکھ کر ٹھہر گئے۔ حیران ہوئے کہ شیخ کیوں رو رہے ہیں۔ ادھر دیکھا ادھر دیکھا آس پاس کوئی نہ تھا۔ ہاں سامنے دو بیل کھڑے تھے۔ لوگوں نے پوچھا‘ رونے کا سبب! فرمایا‘ان بیلوں کو دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا‘ ہاں۔فرمایا‘ ابھی یہ دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے زمین پر بیٹھے تھے ان میں سے ایک بیل نے چاہا کہ کھڑا ہوجائے‘ دوسرا بھی اٹھ کھڑاہوا‘ ایک لمحے کیلئے بھی وہ رکا نہ رہا پھر چھلکتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ جو کچھ فرمایا اس کا مطلب ہے کہ۔ہم آدمی ہیں، اشرف المخلوقات!اس سے بڑا اعزاز یہ کہ ہم مسلمان ہیں بھائی بھائی! مگر ہم میں اتنی بھی رفاقت نہیں جتنی ان بے زبان جانوروں میں ہے یہ دوستی کا مطلب چاہے نہ سمجھیں لیکن انکا عمل عین دوستی ہے۔ایک بادشاہ کی جب عمر ختم ہونے پر آئی تو اس وقت تو اس کا کوئی قائمقام یا جانشین موجود نہیں تھا۔ اس لئے اس بادشاہ نے وصیت کی کہ صبح کو شہر میں جو شخص سب سے پہلے داخل وہ اسی کے سر پر شاہی تاج رکھ کر اسے بادشاہ بنا لینا۔ اتفاقاً صبح سب سے پہلے ایک فقیرگداگر شہر میں وارد ہوا۔ اس نے تو عمر بھر ایک لقمہ بھی جمع نہیں کیا تھا اور وہ اپنے لباس میں پیوند پر پیوند لگاتا جاتا تھا۔ بہرصورت ارکان دولت اور حکومت کے اہل کاروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق عمل کیا‘ خزانوں کی کنجیاں فقیر کے سپرد کردیں اور اس فقیر نے کچھ مدت تک بادشاہت کی لیکن بعض امرا نے اس فقیر بادشاہ کی اطاعت سے منہ پھیر لیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ہر طرح کئی سلاطین اور حکمران لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور بعض لڑائی کے لئے بھی تیار ہوگئے تھے۔ اس کے علاوہ فوج اور رعیت بھی بغاوت پر اتر آئی تھی اور چند شہروں کے کچھ حصے بادشاہ کے قبضے سے نکل گئے تھے۔اس ساری صورتحال پر وہ فقیر بادشاہ بڑا متفکر تھا اور حالت تشویش میں تھا کہ اس کا ایک قدیمی دوست اس سے آکر ملا وہ کبھی فقیری کے دور میں اس کے ساتھ تھا۔ اس نے اب جو اپنے دوست کا یہ مرتبہ دیکھا تو کہا کہ خدائے عزوجل نے آپ کو یہ درجہ عطا کیا ہے اور تیرا نصیب بلند کیا اور تیری باوری کی ہے۔ کہ تیرا پھول کانٹے سے نکل چکا ہے اور تیرا کانٹا تیرے پاؤں سے نکل چکا ہے یعنی ہر سختی کے بعد آسانی ہے‘: کبھی کلی کھلتی ہے اور کبھی خشک ہوجاتی ہے اور درخت بھی کبھی پتوں سے خالی برہنہ ہوتا ہے اور ہر ابھرا چھپا ہوا ہوتا ہے۔اس پر اس فقیر بادشاہ نے دوست سے کہا اے عزیز! یہ مبارکبادی کا وقت اور موقع نہیں بلکہ میرے ساتھ مقام تعزیت ہے کہ جب تو نے مجھے پہلے دیکھا تھا اس وقت مجھے صرف روٹی کا غم اور فکر تھا‘ اب آج جہاں کا غم ہے۔ یعنی اگر دنیا نہ ہو تو ہم افسردہ ہوجاتے ہیں اور اگر وہ دنیا ہو تو پھر اس کی محبت میں کھو جاتے ہیں اس دنیا میں اس سے بڑی بلا بھی کوئی ہوسکتی ہے اگر یہ ہو بھی تو بھی رنج اور اگر نہ بھی ہو تو بھی غم و رنج ہی رہتا ہے۔ تو اگر امارت اور دولت مانگتا ہے صرف دولت قناعت ہی طلب کرو۔