پاپولزم کا مستقبل

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور صدارت میں پاپولسٹ تحریک کا سب سے بڑا لیڈر تھا اسنے نہ صرف اپنے ملک میں پاپولسٹ سیاست کو فروغ دیا بلکہ دنیا بھر کے پاپولسٹ حکمرانوں کی پر زور حمایت کی۔ اسے شائد اس بات کا احساس تھا کہ پاپولزم کی تحریک جتنے پر پرزے نکالے گی اتنا اسکے اقتدار کو دوام حاصل ہو گا۔اسنے نریندرا مودی کے غیر انسانی اور غیر جمہوری انداز حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں فلپائن کے صدر Rodrigo Duterte  جن پر آجکل International Criminal Court میں دو سو سے زیادہ افراد کو منشیات کے خلاف حکومتی آپریشن میں ہلاک کرنے پر مقدمہ چل رہا ہے کی طرفداری کی اور انکے آمرانہ طرز حکومت پر کبھی بھی تنقید نہ کی۔ اسی طرح ہنگری کے وزیر اعظم Viktor Orban‘ برازیل کے صدر Jair Bolsonaro اور بیلا رس کے صدر Alexander Lukashenko سے انکے قریبی تعلقات تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ ان پاپولسٹ حکمرانوں کے آمرانہ ہتھکنڈوں کو دیکھتے ہوے بھی انکی حمایت کرتے رہے۔ترکی کے صدر طیب اردوان نے ہزاروں مخالفین کو جیلوں میں بند کیاسینکڑوں ترک صحافی یورپی ممالک جا چکے ہیں ترکی اور نیٹو ممالک کے اختلافات ٹرمپ کے دور حکومت میں اپنے عروج پر تھے انہی دنوں طیب اردوان نے روس سے S--400 ائیر ڈیفنس سسٹم خریدنے کا معاہدہ کیا۔ یورپی ممالک نے طیب اردوان کو سخت نتائج کی دھمکی دی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سب کچھ نظر انداز کرتے ہوے ترکی کے صدر سے تعلقات برقرار رکھے۔ ان دنوں امریکی اسٹیبلشمنٹ اور روس میں کشیدگی عروج پر تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے تھے۔اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہر پاپولسٹ حکمران کی طرح ٹرمپ بھی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ پاپولزم کی تحریک انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی اس تحریک کے لیڈر وں نے اس نظریے پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھی کہ عوام اخلاقی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور اشرافیہ کرپٹ اور خود غرض ہوتی ہے انکا کہنا تھا کہ کرپٹ حکمران اپنے مفادات‘ بڑی کارپوریشنوں اور بیرونی ممالک کے احکامات کو عوام کی خواہشات اور ضرورتوں پر ترجیح دیتے ہیں ہر پاپولسٹ تحریک کسی ایسی کرشماتی شخصیت پر انحصار کرتی ہے جسمیں بے پناہ خود اعتمادی ہوتی ہے‘ جو اپنے آپ کو قوم کا مسیحا سمجھتا ہے اور جسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو کرپشن‘ تنزل اور تباہی سے بچا سکتا ہے اسکے خیال میں سیاسی میدان اچھائی اور برائی کی قوتوں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ کا اکھاڑا ہوتاہے اس میدان حرب و ضرب میں کرپٹ اشرافیہ ہر صورت میں عوام سے شکست کھاتی ہے پاپولسٹ حکمران معاشرے کو واضح طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم کر کے کاروبار مملکت چلاتے ہیں انکے مخالفین انکے لئے Demagogue کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اس سے انکی مراد ایک ایسا سیاستدان ہے جو عام آدمی کے سامنے پیچیدہ قومی مسائل کے نہایت آسان حل پیش کر کے انکی ہمدردیاں حاصل کر تا ہے وہ لوگوں کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش تو کرتا ہے مگر قومی مسائل کا کوئی عقلی اور منطقی حل پیش نہیں کرتا وہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کا فن بھی جانتا ہے اور بڑی مہارت سے اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ کو نیکی اور بدی کی قوتوں کا تصادم قرار دیتا ہے اسکی کرشماتی شخصیت کی وجہ سے پورے ملک میں اسکا ایک فین کلب ہوتا ہے جو ہر وقت اسکے کارناموں کی تعریف و توصیف کرنے کے علاوہ اسکی ہر غلطی اور کوتاہی کی پردہ پوشی کیلئے تیار ہوتا ہے اپنے مسیحا کی مدح سرائی اس فین کلب کے کلچر کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ گذشتہ صدی میں اور آجکل بھی پاپولسٹ حکمران نیشنلزم‘ لبرلزم اور سوشلزم کے فلسفوں سے اپنی سیاست کیلئے خام مواد حاصل کرتے ہیں آج بھی دنیا کے ہر خطے میں دائیں اور بائیں بازو کے پا پولسٹ حکمران مختلف سیاسی فلسفوں کی بنیاد پر حکومت کر رہے ہیں حکمرانوں کے اس طبقے کو ماہرین معاشیات نے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا ہے انکا کہنا ہے کہ پاپولسٹ حکمران کیونکہ عوام سے ڈھیر سارے وعدے کر کے اقتدار حاصل کرتے ہیں اسلئے انہیں بہت جلد بیرونی ممالک سے ڈھیر سارے قرضے لینے پڑ جاتے ہیں ان ماہرین کی رائے میں ہر پاپولسٹ حکمران کی اقتصادیات اور دیگر امور مملکت سے ناواقفیت بہت جلد معاشی تنزل کی صورت میں سامنے آ جاتی ہے بعض پاپولسٹ حکمران اس تباہی کو دیکھتے ہوے بہت جلد اصلاح احوال کی کوشش کرتے ہیں مگرڈونلڈ ٹرمپ کی طرح مسیحائی کے سرور میں ڈوبے ہوئے حکمران اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتدار سے رخصتی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ‘ یورپ اور دیگر ممالک کو بھی پاپولزم سے نجات مل جائیگی مگر امریکہ کی چھ ریاستوں میں دو نومبرکو ہونیوالے انتخابات نے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آج بھی میدان میں موجود ہے اور امریکی پاپولزم بھی کہیں نہیں جا رہا میں اس کالم میں حالیہ امریکی نتخابات اور گلوبل پاپولزم کے بارے میں لکھنا چاہ رہا تھا مگر اس کیلئے پاپولزم کی تھوڑی بہت تشریح ضروری تھی اسلئے بات حال اور مستقبل کی بجائے ماضی کی طرف نکل گئی فکر کا رہوار مسافر کو ایک اور دنیا میں لے گیا۔موجہ گل سے چراغاں ہے گذرگاہ خیال۔تخیل‘ سوچ اور خواب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی مجھے امید ہے کہ اس سلسلے کے اگلے کالم میں رہوار تخیل نیلگوں فضاؤں میں کلیلیں بھرنے سے گریز کریگا۔