بندے کا بندے سے تعلق ضروری ہے چاہے اسے پتہ ہو چاہے نہ پتہ ہو‘ کہ کسی سے چاہے کتنی ہی نفرت کرلیں لیکن تعلق کا ایک دائرہ ہمیشہ آپ کے گرد کام کرتا رہتا ہے اور آپکو تقویت فراہم کرتا رہتا ہے جبکہ آپ اکیلے اپنے آ پ کو اتنی تقویت نہیں بخش سکتے کبھی بھی آپ اپنے بوٹ کے تسمے خود کھینچ کر اپنے آپ کو ہوا میں نہیں اٹھا سکتے کوئی بندہ آپ کو ’جپھی‘ ڈال کے اونچا اٹھا سکتا ہے مجھے روشنی سے ایک بات یاد آگئی بڑی توجہ طلب اور لطیف بات ہے ایک زمانے میں بہاولپور کے ایک گنے کے کھیت میں ایک گنے کے ٹانڈے پر سور ج کی چمکدار‘سنہری روشنی پڑتی ہے اور وہ صبح سویرے پڑرہی ہوتی ہے سات منٹ کے بعد وہ گنے کا ٹانڈا اس روشنی سے نکل جاتا ہے پھر وہ روشنی دوسرے ٹانڈوں پر یا کھیت پر پڑتی جائے گی جب اس ٹانڈے پر وہ روشنی پڑچکی تو وہ ٹانڈا کٹا اور کٹ کے شوگر فیکٹری میں گیا وہاں وہ کرش ہونے کے بعد چینی میں تبدیل ہوا پھر اس کی بوری بھری گئی اب وہ بوری کس طرح سے سفرکرتی ہوئی ہمارے ہاں لاہور پہنچی پھر دکاندار سے ہمارے ریستوران یا ٹی ہاؤس کے بندے نے کلو دوکلو چینی خریدی ادیب آرٹسٹ لوگ وہاں بیٹھے تھے میں نے وہاں سراج سے کہا (جوٹی ہاؤس میں بڑا ہی پیارا بیرا ہے) کہ چائے کی سٹرانگ سی پیالی لاؤ اب اس نے ایک کی بجائے دو بلکہ سوا دوچینی کے چمچ اس چائے میں ڈالے اور وہ چائے مجھے دی‘ میں وہ چائے پی کر وہاں سے باہر نکلا اور اپنی سائیکل اٹھائی (یہ میں اپنے کالج کے زمانے کی با ت کررہا ہوں)میری وہ سپورٹس سائیکل تھی چلنے سے پہلے میں نے اس کی ڈائنمو کو اس کے ٹائر کیساتھ لگایا میں نے اس چینی سے اپنے اندر پیڈل پاور پیدا کی اور پیڈل چلانا شروع کیا پھر میری سائیکل کے ٹائر سے لگی ڈائنمو سے بجلی پیدا ہوکر میرے سائیکل کی بتی میں آئی تو ساری سڑک میرے سامنے روشن ہوگئی خواتین وحضرات‘یہ وہی روشنی تھی جو سورج نے گنے کو عطا کی تھی یہ رشتے میں بندھی ہوئی کس طرح سے میرے پاس آئی اور اب میں اس روشنی کو پہچانتا تھا اور میں چلا جارہا تھا ہم رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں او ر انہیں توڑنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کسی نہ کسی طرح سے کسی نہ کسی روپ میں ہم کو باہم ہونا پڑے گا آپ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر اس پر ضرور غور کیجئے گا اور لاشعور کی دنیا میں جاکر غور کیجئے گا تو یقینا آپ کسی مثبت نتیجے پر پہنچ پائیں گے۔(اشفاق احمد کے نشر پروگرام سے اقتباس)